پی ٹی آئی سے بلا نکل جانے پر وہ الیکشن میں کامیابی حاصل کرلیگی

سپریم کورٹ آف پاکستان نے تحریکِ انصاف سے ’بلے‘ کا انتخابی نشان واپس لینے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے جو قانونی و سیاسی حلقوں و میڈیا میں آج کل بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔
پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے تحریکِ انصاف کو بلے کا انتخابی نشان الاٹ کیے جانے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل کو منظور کرتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔
چیف جسٹس نے اس کیس کا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سنہ 2021 میں تحریک انصاف کو انٹرا پارٹی انتخابات کروانے کا کہا تھا اور یہ وہ وقت تھا جب تحریک انصاف کی وفاق اور صوبوں میں حکومت تھی چنانچہ ’یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تحریک انصاف سے امتیازی سلوک کیا گیا۔‘
اس فیصلے کے بعد پرنٹ ، الیکٹرونک و سوشل میڈیا میں سیاسی و قانونی حلقہ اس حکم کو کوئی آئینی طور پر درست قرار دے رہا ہے تو وہیں کئی لوگ اس پر تنقید کرتے ہوئے بھی نظر آرہے ہیں کہ آٹھ فروری کے عام انتخابات سے چند ہفتے قبل کسی جماعت سے اس کا انتخابی نشان ’چھین لینا‘ اس کے ووٹروں کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔ جبکہ بعض مبصرین کی رائے ہے کہ کیا اس اقدام کے بعد بھی ان انتخابات کو مُلکی اور غیرمُلکی رائے عامہ ان انتخابات کو صاف و شفاف مان لیں گی.
ٹی وی چینلوں سے لے کر سوشل میڈیا صارفین تک آٹھ فروری کے الیکشن سے قبل یہ فیصلہ نہ صرف قانونی بلکہ سیاسی بحث کا بھی حصہ رہنے کا امکان ہے۔
اس فیصلے کے بعد 8 فروری کے عام الیکشن پر گہرے اثرات مُرتب ہوئینگے.اس فیصلے کہ بعد پی ٹی آئی سے وابستہ امیدواروں کے لیے آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑنے کے علاوہ کوئی آپشن نظر نہیں آرہا ہے. اور ہر قومی اور صوبائی امیدوار کو اپنی مرضی کے مطابق اشتہارات کے ساتھ انفرادی مہم چلانی ہوگی کیونکہ ہر ایک کا انتخابی نشان مختلف ہوئیگا۔ اور اگر امیدواروں کو نقص امن کے تحت حراست میں لیا گیا یا انھیں ہراساں کیا گیا اور انھیں مہم چلانے کی اجازت نہ دی گئی تو یہ اور بھی اس الیکشن پر اثر انداز ہوگا۔‘
اور اس فیصلے کی آڑ میں اگر جیتنے والے پی ٹی آئی اُمیدواروں کے لیے ’حلال ہارس ٹریڈنگ‘ بھی ہوسکتی ہے کیونکہ ’جو امیدوار پی ٹی آئی ووٹرز کی حمایت سے جیت سکتا ہے وہ دباؤ، اثر و رسوخ یا اپنے ذاتی مفادات اور فائدے کے لیے انتخابات کے بعد کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ بن سکے گا یہ پاکستانی سیاستدانوں اور جماعتوں کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے. اگر ملک کی صورتحال پر نظر رکھیں تو یہ پاکستان بھر میں لاکھوں ووٹروں کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ کی جانب سے آنے والا فیصلہ کو قانونی نقطعہ نظر سے دیکھو تو یہ فیصلہ درست ہے۔
اس فیصلے سے مُلک کی تمام سیاسی جماعتوں کے لیے آئندہ کے لیے ایک اصول مرتب کردیا گیا ہے. اس وقت سوائے واحد سیاسی جماعت “ جماعت اسلامی “ کے تمام سیاسی جماعت بشمول پی ہی ، ن لیگ و متحدہ وغیرہ کے ان تمام جماعتوں میں ہمیشہ ڈھونگ کے انٹرا پارٹی انتخابات ہوتے رہے ہیں. اگر ایک دفعہ چیف جسٹس ان تمام جماعتوں کو بھی اپنی اپنی جماعت کے انٹرا پارٹی انتخابات کی کاروائی کا مختصر الیکشن کے انعقاد کا سن لیں تو ان پر بھی پی ٹی آئی والا فیصلہ لگ سکتا ہے. چیف جسٹس کے اس فیصلہ نے آئندہ کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کے لیے اب ڈھونگ کے انٹرا پارٹی انتیخابات صیح طریقہ سے کرانا اب لازمی حصہ بن گیا ہے. اور دیکھا جائے تو یہ صیح بھی ہے کہ اگر ان جماعتوں کے اندر جمہوریت ہو گی تو ہی ملک میں صیح جمہوریت آ سکے گی۔
اس دوران اکثر پی ٹی آئی مرکزی اور صوبائی عہدیداران اپنے اپنے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں اس طرح کے بیانات دے رہے ہیں کہ اس فیصلے سے ’پی ٹی آئی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ عوام اور ووٹرز جانتے ہیں کہ اس ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ آنے والے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کو روکنے کے لیے ہر حد پار کی جا رہی ہے۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ یہ لوگ جو مرضی کر لیں، ہم الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کریں گے۔ پی ٹی آئی ہر صورت میں الیکشن میں حصہ لیں گے اور آخری گیند تک لڑیں گے. اکثر تحریک انصاف کے مرکزی اور صوبائی عہدیداران سے اگر یہ سوال کیا جائے کہ بلے کا نشان بیلٹ پیپر پر نہ ہونے سے الیکشن میں پی ٹی آئی کے امیدوار کی جیت کس طرح سے ہوئیگی ؟
تو پی ٹی آئی کے مرکزی عہدیداران کا یہ یہی کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو اور زیادہ محنت ضرور کرنی پڑے گی لیکن اس بات کو پی ٹی آئی وورکرز بھی ضرور جانتے ہیں کہ جو لوگ آزاد لڑ رہے ہیں، ان کے علاقے کے لوگوں کو معلوم ہوگا کہ یہ تحریک انصاف کا امیدوار ہے۔ اگر پی ٹی آئی کے وورکرز نے زیادہ محنت کی اور ووٹر کو نکالنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر پی ٹی آئی کو کوئی شکست دینا اتنا آسان نہیں ہوگا. اس وقت تحریک انصاف کا سوشل میڈیا پر گرفت اور جماعتوں سے زیادہ مربوط و مستحکم ہے. اور ان کی اپنے سپووٹرز تک رسائی اور رابطے خاصے مضبوط ہیں۔ ’وہ یہ پیغام با آسانی پہنچا سکتیں ہیں. کہ ان کے ووٹر کو کسے ووٹ کاسٹ کرنا ہے اور ان کے امیدوار کا انتخابی نشان کیا ہے۔ دیکھا جائے تو اس وقت تحریک انصاف اپنے پارٹی آئین کے تحت انٹرا پارٹی الیکشن کروانے میں ناکام رہی۔ ’چلو پارٹی چیئرمین کا انتخاب چھوڑ کر کم از کم دیگر صوبوں میں تو صحیح انداز میں الیکشن کرواتے۔ الیکشن کمیشن نے انھیں بیس دن کا وقت دیا۔ لیکن انھوں نے گیارہ دن میں الیکشن کروا کر نتائج بتا دیے۔ وہ کچھ اور نہ کرتے سب سوشل میڈیا پر ہی اشتہار کر دیتے کہ اس تاریخ کو انٹرا پارٹی الیکشن ہیں اور آپ کاغذات جمع کروا سکتے ہیں۔ اس جگہ پر الیکشن کا انعقاد ہوگا۔ لیکن وہ یہ سب کرنے میں ناکام ہوئے۔ اس بات ہر پی ٹی آئی کے ترجمان یہی میڈیا اور عوام میں کہتے پائے گئے ہیں کہ
’ہم نے الیکشن کروائے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ ان کو تسلیم نہیں کر رہی۔‘
عام عوامی و قانونی ماہر کا تاثر پی ٹی آئی کے لیے یہی ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد حیثیت میں جیت جاتے ہیں تو پھر کیا ہوگا؟ کیا ان پر پارٹی قانون لاگو ہوگا؟ کیا پی ٹی آئی مخصوص نشستیں کھو دے گی؟ یہ وہ تمام سوالات ہیں جو ماہرین کے مطابق خاصے اہم ہیں۔
جبکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ و قانونی نقطہ نظر ان کا یہی ہے کہ ’آئینی اور قانونی طور پر آزاد حیثیت میں جیتنے والے امیدوار پر کسی سیاسی جماعت کا قانون لاگو نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ان پر دباؤ ڈال کر وفاداریاں بھی تبدیل کرائی جا سکتی ہیں۔‘ یعنی اس سے ہارس ٹریڈنگ کا خدشہ بڑھ سکتا ہے. جو پاکستان کے ہر الیکشن کے بعد ہوتا آیا ہے. جس سے پاکستانی جمہوریت کی بھی کافی جگ ہنسائی ہوتی ہے.
جبکہ مخصوص نشستوں کے لیے بھی یہاں تحریک انصاف کو ہی زبردست نقصان پہنچ سکتا ہے۔ تاہم اگر پی ٹی آئی الیکشن جیتنے کے بعد کسی دوسری جماعت کے ساتھ الحاق کرلے تو پھر یہ اپنی مخصوص نشستیں حاصل کر سکتی ہے۔ تاہم یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ تحریک انصاف کس جماعت کے ساتھ الحاق کرے گی کیونکہ ان کے سیاسی اور حُکمرانی دور میں کسی سیاسی جماعت کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں رہے ہیں۔
اس وقت تحریک انصاف اپنے سوشل میڈیا میں یہ ہی ٹرینڈ چلارہی ہے کہ ان کی جماعت کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
اس فیصلے کو اگر تاریخی پہلوؤں کی طرف سے دیکھا جائے تو 1988 میں پیپلز پارٹی سے تلوار کا نشان لے لیا گیا تھا۔ ’ان سے تلوار کا نشان لے کر تیر کا نشان دیا گیا تھا اور وہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تھا، اس لیے پیپلزپارٹی نے اس فیصلہ کو ماننا پڑا۔ اسی طرح 2018 میں سینیٹ کے الیکشن سے پہلے مسلم لیگ ن سے شیر کا نشان لے لیا گیا تھا اور نواز شریف کے امیدواروں کو آزاد حیثیت سے آگے آنا پڑا۔
سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے ’آنے والے انتخابات کی ساکھ کو کافی حد تک نقصان پہنچے گا۔ قانونی طور پر فیصلہ درست ہے لیکن سیاسی حلقوں میں یہ فیصلہ شاید اتنا مناسب نہ سمجھا جائےہمیشہ سیاسی جماعتوں کو یہی سمجھایا گیا تھا کہ سیاست کے فیصلے عدالتوں میں نہیں ہونے چاہییں۔ ’چاہے مخالفوں کو عمران خان سے جتنا مرضی اختلاف ہو لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس کا ووٹ بینک موجود ہے۔ اس لیے سیاسی طور پر اس کے ووٹر کو عزت ملنا بہت ضروری ہے۔‘
جبکہ یہ پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہے کہ الیکشن سے قبل اور بعد میں کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا ہے۔ ’ہم نے ماضی کی جو غلطیاں کی ہیں، وہ آج کل میں کی جانے والی غلطیوں کا جواز نہیں ہونا چاہییں۔‘

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 187 Articles with 81237 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.