روشنیوں کا جگمگاتا شہر ٹائم اسکوائر

اس شہر کو دنیا والوں کا شہر کے نام سے جانا چاہتا ہے. کیونکہ اس شہر میں تمھیں امریکیوں کا کوئی ہجوم نظر نہیں آئیگا اور اِس شہر کو امریکیوں کا نہیں بلکہ دنیا والوں کا شہر ہی نظر آئیگا۔ اس میں مختلف رنگ، نسل، مذہب، قوم و زبان کے ساتھ ہر نظر آنے والا شخص ایک دوسرے جیسا ہی نظر آتا ہے لیکن ہے مختلف۔ نیویارک میں لوگوں کو جو شے اِس شہر میں ایک دوسرے سے جوڑے رکھتی ہے وہ ’’جستجو ‘‘ ہے۔ کوئی اس شہر میں اپنے ایک بہتر مستقبل کی جستجو میں ہے تو کوئی یہاں مواقع کی جستجو میں ہے، کوئی اپنے آرام و سکوں کی جستجو میں تو کوئی پیچھے رہ جانے والوں کے لئے ایک بہتر آج کی جُستجو میں ہے، جبکہ میں بھی ایک ’’جُستجو ‘‘ کے آس میں یہاں تک آن پہنچا۔ میری جُستجو جو تھی جاننا، سیکھنا اور یہ سمجھنا کہ وہ کیا چیز ہے، جو ایک قوم کو دوسری اقوام سے مخلتف بناتی ہے، میری جُستجو کی منزل چل رہی ہے لیکن میرا اِس شہر میں آخری دن ہے۔

اِس شہر کی چکاچوند روشنیوں کا مرکز ”ٹائم اسکوائر‘‘ ہے۔ یہ شہر ایونیوز اور اسٹریٹس میں تقسیم ہے۔ ٹائم اسکوائر، نیویارک کے ’’صدر‘‘ کا ریگل چوک ہے۔ یہ تھیٹرز کے لئے مشہور براڈ وے ایونیو اور سینونتھ ایونیو کا سنگم ہے۔ اِس کی روشنیاں آنکھوں اور خوابوں کو روشن کرتی ہیں۔ آنے والوں کی حیرانی، جانے والوں کی مسکراہٹیں اور حسرتیں، دوستوں کا، جوڑوں کا، خاندانوں کا روشنیوں کے ساتھ تصویریں کھنچواتے ہوئے یہ عہد کہ یہ روشنی ہمارے رشتوں میں ہمیشہ روشن یادوں کی طرح رہے، یہ سب دیکھنا بہت پُرکشش لگتا ہے۔

میں نے اس شہر کی جو جگمگاتی روشنیوں کا مرکز کہلاتا ہے اس کا مرکز ”ٹائم اسکوائر‘‘ ہے۔ یہ شہر مختلف یعنی ایونیوز اور اسٹریٹس میں تقسیم ہے۔ ٹائم اسکوائر، نیویارک کے ’’صدر‘‘ کا ریگل چوک بھی کہلاتا ہے۔ یہ شہر تھیٹرز کے لئے مشہور براڈ وے ایونیو اور سینونتھ ایونیو کا سنگم بھی جانا چاہتاہے۔ اِس کی چکاچاند روشنیاں آنکھوں اور خوابوں میں آکر دماغ کو روشن کرتی نظر آتیں ہیں۔ آنے والوں کی حیرانی، جانے والوں کی مسکراہٹیں اور حسرتیں، دوستوں کا، جوڑوں کا، خاندانوں کا روشنیوں کے ساتھ تصویریں کھنچواتے ہوئے یہ عہد کہ یہ روشنی ہمارے رشتوں میں ہمیشہ روشن یادوں کی طرح آباد ہمیشہ کے لیے قائم رہے، یہ سب دیکھنا بہت دل کو بہت پُرکشش لگتا ہے۔

ٹائم اسکوائر کو دنیا بھر میں عوام کے پیدل چلنے والوں کے لئے مصروف ترین راستہ بھی مانا جاتا ہے۔ اکثر عام دنوں میں روزانہ 3 لاکھ سے زائد کے قریب لوگ پیدل گزرتے ہیں جبکہ روزانہ 1 لاکھ 60 ہزار سے زائد کے قریب لوگ کاروں، بسوں میں سوار ہوئے یہ روشنی کا سمندر پار کرتے ہیں اور جبکہ خاص دنوں میں یہ تعداد پانچ لاکھ لوگ روزانہ کے حساب تک جا پہنچتی ہے۔

جبکہ اتنی بڑی تعداد میں عام لوگوں کا ایک جگہ سے روزانہ کی بنیاد پر یہاں سے گزرنا ، کسی بھی اشتہاری پروڈکٹ کے لئے ایک بہترین جگہ دنیا بھر میں مشہور ہے اسی ہی وجہ سے اِن طویل و بُلند عمارتوں پر لگی ہوئی اشتہاری اسکرینز دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں کے نت نئے پراڈکٹس کے اشتہارات سے جگمگاتی رہتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اِن اسکرینز پر اشتہار دینے کی قیمت پاکستانی روپے کے حساب سے کروڑوں میں ہے۔

ٹائم اسکوائر کے ایک جانب جہاں بڑے بڑے شاپنگ اسٹورز، ریستوران ہیں وہیں دوسری طرف براڈ وے کے مشہور تھیٹرز ہیں، جہاں ڈرامے کئی سالوں سے جاری ہیں اور آرٹ اور ڈرامے کے شوقین افراد کو کئی دن قبل اور بعض دفعہ کئی مہینے قبل مشہور شوز کی بکنگ کروانی پڑتی ہے اور اِن شوز کی قمیت 25 ہزار پاکسستانی روپے سے لے کر لاکھ تک جا پہنچتی ہے، لیکن اعلیٰ پائے کے فنکاروں کو براہِ راست پرفارم کرتے دیکھنے کا مزہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔

ٹائم اسکوائر کی سینٹرل بلڈنگ میں ایک رنگین روشن بال نصب ہے جس پر فی الحال2023ء لکھا ہوا ہے۔ یہ ہر سالِ نو پر تبدیل ہوجاتا ہے اور نئے آنے والے سال کے نام سے منسوب کی ہوجاتی ہے۔ اِس تقریب کو دیکھنے کے لئے لاکھوں افراد جمع ہوتے ہیں اور نئے سال کو یادگار بناتے ہیں۔

1904ء سے پہلے یہ جگہ لانگ ایکر اسکوائر کے نام سے مشہور ہوا کرتی تھی، لیکن جب اُسی سال مشہور امریکی پبلشر ادارے نیویارک ٹائمز نے اپنا صدر دفتر یہاں منتقل کیا تو اِس جگہ کا نام بھی اِسی کے ساتھ جُڑ کر ٹائم اسکوائر میں بدل گیا۔ حتیٰ کہ اُس کے بعد پبلشر کا دفتر کہیں اور منتقل ہوتا گیا لیکن نام نے اِس جگہ کا ساتھ نہیں چھوڑا۔

دنیا بھر سے امریکہ آنے والے لاکھوں سیاحوں کے لئے نیویارک آئے بغیر شاید ہی امریکہ کا دورہ مکمل ہوتا ہو، اور اگر نیویارک آکر ٹائم اسکوائر تک نہیں آئے تو ایسا ہی ہے جیسے آپ دستر خوان پر بریانی چھوڑ کر صرف سلاد کھا کر چل دیئے۔

رات میں کافی لے کر ٹائم اسکوائر کی سرخ رنگ کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر ہنستے مسکراتے، حیرت میں متبلا لوگوں کو دیکھنا ایک اور ہی لطف ہے جن میں سے کوئی شارٹ اسکرٹ میں تو کوئی حجاب میں، کسی کے سر پر پگ تو کسی کے سر پر چھوٹی کالے رنگ کی ٹوپی، کوئی اپنی گود میں مختلف نسل کے بہترین کُتے تو کوئی گود میں اُٹھائے بلی لیکر گزرتے ہیں تو اس کا دیکھنے کا ایک الگ ہی لطف ہے.

انجینیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجینیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجینیر! شاہد صدیق خانزادہ: 187 Articles with 81162 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.