جہاں ہمارے بچے ہوتے تھے اس کا بھی وہیں ہوگا، ماں کی سنیں یا بیوی کی مردوں کا ایک ایسا مسئلہ جو صدیوں سے موجود

image
 
عام طور پر شادی کے بعد یہی کہا جاتا ہے کہ لڑکی کے لیے بہت مسائل ہوتے ہیں اور اس کو نئے گھر اور نئے ماحول میں ایڈجسٹ کرنا ہوتا ہے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شادی کے بعد جس طرح لڑکی کی زندگی میں تبدیلی آتی ہے ویسے ہی مرد کی زندگی بھی یکسر تبدیل ہو جاتی ہے-
 
ماں اور بیوی کے درمیان توازن رکھنے کی کوشش میں وہ نہ صرف خود کو ہلکان کر لیتے ہیں بلکہ کئی بار یہ بات جاننے کے باوجود کہ ان کی بیوی حق پر ہے وہ بیوی کا ساتھ نہیں دے سکتے ہیں- اور ماں کی ضد کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں-
 
پہلے بچے کی ڈلیوری اور ساس بہو کی کھینچا تانی
جب کسی بھی شادی شدہ جوڑے کو یہ خوشخبری ملتی ہے کہ وہ امید سے ہیں اور ان کے گھر کوئی خوشخبری آنے والی ہے تو ان کی خوشی مثالی ہوتی ہے۔ مگر یہ خوشی صرف ان کی خوشی نہیں ہوتی ہے بلکہ دادا دادی سب ہی اس بات سے بہت خوش ہوتے ہیں-
 
مگر اس کے ساتھ ہی ایک نئی جنگ بھی شروع ہو جاتی ہے۔ جس کے مطابق ساس کا یہ کہنا ہوتا ہے کہ بچے کی ڈلیوری اس کے تجربات کی روشنی میں کروائی جائے جبکہ دوسری طرف بہو جو کہ موجودہ زمانے کی لڑکی ہوتی ہے وہ اپنی ضد پر قائم ہوتی ہے-
 
جہاں ہمارے بچے ہوتے تھے اس کا بھی وہیں ہوگا
اکثر ساسیں اس بات پر بضد نظر آتی ہیں کہ بہو کی بھی ڈلیوری اسی طرح سے ہو جس طرح سے ان کے بچوں کی ڈلیوری ہوئی چاہے وہ ڈلیوری گھر پر ہو یا پھر محلے کے کسی میٹرنٹی ہوم میں ، ان کو وہی جگہ سب سے زيادہ قابل اعتبار نظر آتی ہے-
 
image
 
مگر بہو کو ایک طرف سے تو اس کے میکے کی جانب سے رہنمائی مل رہی ہوتی ہے اور دوسری جانب وہ ایک نئے دور کی لڑکی ہوتی ہے اور ایسے وقت میں کسی رسک لینے کا سوچ نہیں سکتی ہے- وہ اکیسویں صدی کی لڑکی ہونے کی وجہ سے ماضی کی عورتوں کی طرح خاموشی سے سسرال والوں کی ماننے کے بجائے اپنے فیصلے خود کرنے پر یقین رکھتی ہے-جس کی وجہ سے ساس بہو میں ایک کھینچا تانی کی کیفیت ہو جاتی ہے-
 
ماں اور بیوی کے درمیان اس جنگ میں مرد کا کردار
نو مہینے وہ عرصہ ہوتا ہے جس میں ایک جانب تو بیوی کے حمل کے سبب مرد اس کی دیکھ بھال کی اضافی ذمہ داری بھی سنبھال رہا ہوتا ہے- اور اس کی پوری کوشش یہی ہوتی ہے کہ بیوی کا ہر ممکن خیال رکھے تاکہ وہ صحت مند بچے کا باپ بن سکے- اور دوسری طرف ماں کو راضی رکھنا بھی اس کے لیے ضروری ہوتا ہے ورنہ اس پر زن مرید کا لیبل لگا دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ ماں کی حکم عدولی سے بھی کتراتا ہے-
 
ایسی صورت حال میں اکثر اوقات مرد حضرات ماں کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں- اور بیوی کی ڈلیوری ماں کی بتائی ہوئی دائی یا پھر کسی عام سے محلے کے میٹرنٹی ہوم میں کروانے کے لیے راضی ہو جاتے ہیں جہاں پر ماں اور بچے دونوں کے لیے سہولیات ناکافی ہوتی ہیں- مگر ماں کو راضی کرنے کے لیے وہ اپنی بیوی اور بچے کی جان کا رسک لینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں تاکہ ان کو کوئی زن مرید نہ کہے-
 
ایسے کئی واقعات کے نتیجے میں نہ صرف ڈلیوری کے وقت مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے بلکہ اکثر اوقات بڑا نقصان بھی اٹھانا پڑ سکتا ہے- اور پہلی بار کی ڈلیوری میں ہونے والی پیچیدگی ساری زندگی ساتھ چلتی ہے-
 
اپنی بیوی اور بچے کے لیے فیصلہ خود کریں
یہ وقت بہت ذمہ داری کا وقت ہوتا ہے بطور مرد اپنے خاندان کی حفاظت کی ذمہ داری شوہر کی ہی ہوتی ہے- اور اس وقت میں کسی بھی تنازع سے بچنے کے لیے کیا جانے والا ایک غلط فیصلہ آپ کو ساری عمر کا روگ بھی دے سکتا ہے-
 
اس وجہ سے اس وقت میں ڈلیوری کروانے سے قبل ہسپتال کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے اور اس کے لیے صرف ماں کے ماضی کے تجربات پر آنکھیں بند کر کے یقین نہیں کرنا چاہیے-
 
image
 
کیوں کہ وقت بدل چکا ہے اور آج کل کے زمانے میں ناخالص غذاؤں اور مصنوعی ماحول کے سبب لڑکیاں ماضی کی خواتین کی طرح مضبوط اور طاقتور نہیں ہوتی ہیں- اس کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے بھی جدید ہسپتالوں میں ایسی سہولیات موجود ہیں جہاں پر ان کو ہر طرح کی فوری طبی امداد دی جا سکتی ہے-
 
آپ کا انتخاب چاہے سرکاری ہسپتال ہو یا پرائيویٹ ہسپتال، اس کے حوالے سے مکمل تحقیق ضرور کریں- کہ وہاں کے ڈاکٹر تجربہ کار ہیں یا نہیں، وہاں پر زجہ بچہ کے لیے مکمل سہولیات موجود ہیں یا نہیں-
 
اس کے ساتھ ساتھ مردوں کو یہ بھی چاہیے کہ ماں کو یہ بات سمجھائیں کہ یہ وقت ضد کا نہیں ہے بلکہ وقت کے ساتھ مناسب فیصلے کرنے کا ہے ۔ پرانے وقت میں جب کہ عورتیں گھر پر ہی ڈلیوری کروا لیتی تھیں تو اس وقت سہولیات بھی ناکافی تھیں- مگر اب جیسے ہم لینڈ لائن سے موبائل فون کے دور میں داخل ہو چکے ہیں تو ڈلیوری کے لیے بھی صرف تجربہ کافی نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے ساتھ کچھ اور بھی چیزیں دیکھنا ضروری ہوتی ہیں تاکہ زچہ اور بچہ کی زندگی کو محفوظ بنایا جا سکے-
 
YOU MAY ALSO LIKE: