ہم نے کوئی جرم نہیں کیا پھر بھی سزا دی گئی٬ بہنوں کو شادی کے موقع پر گھوڑے پر بٹھانے پر 50 ہزار کا جرمانہ کیوں لگایا گیا؟

image
 
انڈیا کی ریاست راجستھان میں رواج ہے کہ لڑکیاں اپنی شادی کے دن گھوڑے پر بیٹھتی ہیں۔ اس سے یہ پیغام دیا جانا مطلوب ہوتا ہے کہ بیٹے اور بیٹیاں برابر ہیں۔
 
لیکن جب گھوڑوں پر بیٹھی دلت لڑکیوں کی بات آتی ہے تو انڈیا کے سماج کے اندر سے ہی آوازیں اٹھنے لگتی ہیں۔
 
ایسا ہی کچھ انڈیا کے ضلع بارمیر کے گاؤں میلی میں ہوا جب ’بندولی‘ کی رسم کے لیے دو دلت بہنوں کو گھوڑے پر بٹھایا گیا لیکن جیسے ہی دونوں بہنوں کے ہاتھوں پر لگی مہندی کا رنگ تھوڑا سا پھیکا پڑا، ایک تنازع کھڑا ہو گیا۔
 
انڈیا میں بندولی نامی تقریب شادی سے ایک دن پہلے ادا کی جاتی ہے جس میں لڑکیاں کل دیوی کی پوجا کرنے جاتی ہیں۔
 
میلی گاؤں کی تقریباً 4000 کی آبادی میں 300 خاندان دلت میگھوال برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔
 
اس گاؤں میں پہلی بار لڑکیوں کو شادی سے پہلے گھوڑے پر بٹھایا گیا تھا اور یہ رواج شروع کرنے والا ایک دلت خاندان تھا۔
 
image
 
گھوڑے پر بیٹھنے کی سزا
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شنکر رام میگھوال نے بتایا کہ اُن کی بہنوں کی شادی کے دو ماہ بعد میگھوال برادری کے 12 گاؤں کے سرپنچوں کی پنچایت ہوئی۔
 
’مجھے وہاں بلایا گیا اور بہنوں کو گھوڑے پر بٹھانے پر 50 ہزار روپے جرمانہ کیا گیا۔ رقم ادا نہ کرنے پر سماجی بائیکاٹ کیا گیا۔‘
 
پنچایت کے اس فیصلے نے ان کے گاؤں میں تناؤ کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ شنکر رام میگھوال کے گھر میں انڈیا کے دلت رہنما بھیم راؤ امبیڈکر کی تصویر نمایاں تھی۔
 
شنکر نے بتایا کہ انھوں نے پنچایت کے فیصلے کے خلاف تھانے میں شکایت درج کروائی اور ایس ڈی ایم آفس سے بھی رابطہ کیا گیا ہے۔
 
تھانے کے انچارج ناتھو سنگھ چرن بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ ’شنکر رام نے تحریری شکایت دی ہے، تاہم اس نے کوئی ویڈیو، آڈیو، تصویر یا تحریری ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔ ہم نے شکایت کنندہ کا بیان لے لیا ہے اور تحقیقات کر رہے ہیں۔‘
 
دوسری جانب مقامی ایس ڈی ایم دنیش بشنوئی نے بھی بی بی سی کو بتایا کہ ’پولیس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔‘
 
شنکر میگھوال نے اپنی تحریری شکایت میں لکھا ہے کہ ’بہنوں کو گھوڑے پر بٹھایا گیا، اس لیے میرے خاندان کو سوسائٹی سے نکال دیا گیا اور 50 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ اسی دوران سرپنچوں نے سوسائٹی کو دھمکی دی کہ جو کوئی بات کرے گا یا ہمارے پاس آئے گا، خاندان کے ساتھ اس کو بھی سزا دی جائے گی۔‘
 
پنچایت نے سزا کیوں دی؟
بی بی سی نے پنچایت سے وابستہ لوگوں سے بات کرنے کی کوشش کی۔ پنچایت میں موجود پوکر میگھوال نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جرمانہ پنچایت نے لگایا لیکن شنکر نے جرمانہ ادا کرنے سے انکار کر دیا۔‘
 
شنکر لال میگھوال نے پولیس کو اپنی شکایت میں پنچ موہن لال اور پنچ بھانجارام کے نام بھی لکھے ہیں۔
 
بی بی سی نے پنچ موہن لال سے جرمانے کے بارے میں پوچھا۔
 
موہن لال کہتے ہیں کہ ’پنچایت میں جرمانہ نہیں لگایا گیا۔ ہمارا آپس میں کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ پولیس سے شکایت کیوں کی گئی۔‘
 
پنچ بھانجارام سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ تاہم ان کے بھتیجے رمیش میگھوال نے کہا کہ وہ اس معاملے پر بزرگوں کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
 
رمیش میگھوال دو سال سے بھیم آرمی کے مقامی صدر ہیں اور اب سرکاری نوکری کی تیاری کر رہے ہیں۔
 
وہ کہتے ہیں کہ ’میں پنچایت میں نہیں تھا، لیکن مجھے معلومات ملی ہیں۔ میں جودھ پور میں ہوں اور فون پر لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ سماجی بائیکاٹ غلط ہے۔‘
 
image
 
’پہلی بار ایک لڑکی گھوڑے پر بیٹھی‘
دیپو اور لکشمی کی شادی اسی سال 6 فروری کو ہوئی تھی جب ان کو گھوڑے پر لے جایا گیا۔ دیپو کا سسرال جودھ پور میں اور لکشمی کا سسرال پالی ضلع میں ہیں۔
 
جودھ پور میں ہم سے بات کرتے ہوئے دیپو کا کہنا تھا کہ ’ہمیں گھوڑے پر بیٹھ کر بہت خوشی ہوئی، گاؤں میں پہلی بار ہوا کہ لڑکیوں کو گھوڑے پر بٹھایا گیا۔‘
 
یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ لیکن پھر اچانک اُن کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔
 
انھوں نے کہا ’میں نے بڑی بہن لکشمی سے فون پر بات کی تھی۔ وہ بھی بہت دکھی ہیں۔ ہم نے کوئی جرم نہیں کیا، لیکن پھر بھی جرمانہ ہوا۔‘
 
پھر وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں ’اس دوران سب اکٹھے تھے۔ سب خوش تھے اور گاؤں والوں نے اسے بہت پسند کیا۔ لیکن مجھے نہیں معلوم کہ دو ماہ بعد اُن کے ساتھ کیا ہوا۔‘
 
گھوڑے پر بیٹھنے کے فیصلے کو قبول کرتے ہوئے دیپو اعتماد سے کہتی ہیں کہ ’سسرال والوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک اچھا قدم تھا۔ ہم کب تک پسماندہ سوچ کے ساتھ زندہ رہیں گے؟‘
 
دیپو کے شوہر ڈاکٹر یشپال ڈینٹسٹ ہیں اور جودھ پور میں اپنا کلینک چلاتے ہیں۔
 
وہ کہتے ہیں کہ ’معاشرے کو اچھائی کا پیغام دیا گیا تھا یا برا، اب سمجھ نہیں آتا۔‘
 
image
 
’خاندان پریشان ہے‘
شنکر کے والد کا انتقال 2010 میں ہوا تھا۔ اپنے والد کی جگہ شنکر رام کو راجستھان کے محکمہ تعلیم میں نوکری مل گئی۔
 
32 سالہ شنکر رام میگھوال نے پنچایت کے فیصلے کو چیلنج تو کیا ہے لیکن وہ پریشان ہیں۔
 
وہ کہتے ہیں کہ ’میری بہنیں اور بھائی ہیں۔ میں انھیں اپنے والد کی کمی محسوس نہیں ہونے دینا چاہتا۔‘
 
دیپو کی بھابھی ریکھا میگھوال کہتی ہیں کہ ’اب ہمیں کام یا شادی کے لیے دعوت نامے نہیں مل رہے۔‘
 
وہ کہتی ہیں کہ ’آج کل بہت آزادی ہے لیکن ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عورتوں کو آزادی نہیں ہے۔ وہ دونوں بہنیں گھوڑے پر بیٹھ کر بہت خوش تھیں۔‘
 
image
 
بندولی کیا ہے؟
راجستھان ہائی کورٹ کے وکیل ماہر ستیش کمار کا کہنا ہے کہ دوسری ریاستوں کے مقابلے میں راجستھان میں بندولی کی روایت کا رواج زیادہ ہے۔
 
وہ کہتے ہیں کہ ’گھوڑا ہمیشہ سے فخر، بہادری اور جاگیرداری کی علامت رہا ہے۔‘
 
دہلی یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر جتیندر مینا کہتے ہیں کہ ’کئی جگہوں پر بندولی پیدل اور گھوڑے، گاڑی یا اونٹ پر بھی کی جاتی ہے۔‘
 
’شادی سے ایک دن پہلے کل دیوی یا کل دیوتا کی پوجا کی جاتی ہے۔ خواتین گیت گاتی ہوئی چلتی ہیں۔ لڑکیاں بھی گھوڑوں پر بیٹھ کر بندولی کھینچنا شروع کر دیتی ہیں۔ یہ فخر اور وقار کی علامت ہے۔‘
 
image
 
’دلت خواتین کے لیے گھوڑے پر بیٹھنا ضروری ہے‘
دلت مفکر بھنور میگھونشی کہتے ہیں کہ ’لڑکیوں کا گھوڑے پر سوار ہونا ایک بہت ہی مثبت تبدیلی ہے لیکن خواتین کو معاشرے میں تسلیم نہیں کیا جاتا۔‘
 
ڈاکٹر جتیندر مینا کہتے ہیں کہ ’پہلے شادیوں میں صرف لڑکے ہی گھوڑوں پر بیٹھتے تھے، لیکن پچھلے کئی برسوں سے لڑکیوں نے بھی اس رواج میں حصہ لینا شروع کر دیا ہے۔‘
 
وہ کہتے ہیں کہ ’پدرانہ سوچ نہیں چاہتی کہ عورتیں برابر کے طور پر کھڑی ہوں۔‘
 
image
 
ذات پنچایت کیا ہے؟
سماجی کارکن کویتا سریواستو کہتی ہیں کہ ’راجستھان میں ہم انھیں ذات پنچایت کہتے ہیں۔ جب بھی اعلیٰ ذات کے لوگوں کو کسی قسم کا چیلنج آتا ہے تو وہ ان پنچایتوں کے ذریعے حکم جاری کرتے ہیں۔ یہ بالکل غیر آئینی ہے۔‘
 
وہ کہتی ہیں کہ ’جو لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں اور اس طرح کے احکامات جاری کرتے ہیں، ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جانا چاہیے۔‘
 
’سیاسی جماعتیں انھیں نہیں روکتیں کیونکہ یہ ان کے ووٹ بینک کی سیاست کا حصہ ہیں۔‘
 
تاہم میلی کا معاملہ پولس انتظامیہ تک پہنچنے کے بعد دلت میگھوال سماج کی پنچایت بیک فٹ پر آگئی ہے۔
 
شنکر رام میگھوال کہتے ہیں کہ ’پنچایت نے مجھے دوبارہ بلایا ہے اور سمجھوتہ کرنے کا کہا ہے۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ وہ اسٹامپ پیپر پر اپنی غلطی تسلیم کریں۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: