جمعہ نامہ: منافقت کی حقیقت

ارشادِ ربانی ہے :’’ بیشک منافق لوگ دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے اور آپ ان کے لئے ہرگز کوئی مددگار نہ پائیں گے‘‘۔ منافق یا نفاق کا مآخذ نفق یعنی سرنگ ہوتاہے ۔ عیار لومڑی اپنے بل کے دو منہ رکھتی ہے۔ ان میں سے ایک کا نام نافقاء اور دوسرےکو قاصعاء کہتے ہیں ۔ کوئی شکاری جب اس کا تعاقب کرتا ہے تو وہ ایک طرف سے داخل ہوکر دوسری جانب سے نکل جاتی ہے لیکن اگر دوسری طرف سے تعاقب ہو تو وہ پہلے سوراخ سے فرار ہو جاتی ہے۔ نفاق کی دو قسمیں ہیں۔ اس کا ایک اعتقادی اور دوسرا عملی پہلو ہے۔ عقیدے کا نفاق تو یہ ہے کہ انسان زبان سے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرے مگر دل اسلام کا منکر ہو۔ یعنی دل میں کفراور زبان پر اسلام کا کلمہ جاری و ساری ہو۔ ایسے فرد کو اگر کفر سے کسی نقصان کا اندیشہ ہو تو وہ اسلام کے دامنِ رحمت میں پناہ لیتا ہے لیکن اگر اسلام کے باعث کسی آزمائش کا خدشہ ہو تو وہ کفر کا ہمنوا بن جاتا ہے۔

عملی نفاق کے معنیٰ زبان و دل کا یکساں نہ ہوناہے۔منافقت ایسے طرز عمل کا نام ہے جو قول و فعل کے تضاد سے عبارت ہو۔ اس میں انسان کا ظاہر اور باطن ایک دوسرے سے نہ صرف مختلف بلکہ متضاد ہوتا ہے۔ نفاق ِعملی ایک بیماری ہے اور اس کی اولین وجہ جہالت ہے۔منافقت کی تباہ کاریوں سے لاعلم لوگ اس میں بہ آسانی مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس مرض کا علاج نفاق کے نقصانات کا علم حاصل کرکےاس سے بچنے کی شعوری کو شش اورعملی تدابیر اختیار کرنا ہے۔ عملی نفاق کا دوسرا سبب حرص و ہوس کا غلبہ ہے۔ دنیوی آسائش کی طمع اور لالچ انسانوں کو منافقت کے جال میں پھنسا دیتی ہے۔ اس سے بچنے کے دنیا کے فانی ہونے کا استحضار لازمی ہے ۔ دنیا کی محبت جب غالب ہو جاتی ہے تو انسان جائزو ناجائز کی تفریق مٹا کر، حلال و حرام کو بالائے طاق رکھ کر دوسروں کے حقوق کو پامال کرنےکے باوجود پارسائی کا چولہ اوڑھے رہتا ہے۔اس قلبی بیماری سے شفایابی کے لیے مال واولاد کی محبت،دنیا اوراس کے خزانوں پر فدائیت ، جاہ ومنصب کی ہوس، اور ہرحال میں اس سے منفعت کےحصول کی تمنا سے نجات ضروری ہے۔

قرآن حکیم میں منافقین کی تصویر کشی اس طرح بھی کی گئی ہے کہ :’’ انسانوں میں کوئی تو ایسا ہے، جس کی باتیں دنیا کی زندگی میں تمہیں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں، اور اپنی نیک نیتی پر وہ بار بار خد ا کو گواہ ٹھیرا تا ہے، مگر حقیقت میں وہ بد ترین دشمن حق ہوتا ہے‘‘۔وطن عزیز کے اندر ہر انتخابی مہم کے دوران اس کا مظاہرہ زور و شور سے ہوتا ہے۔ مختلف سیاست داں(الا ماشاء اللہ) اقتدار کے حصول کی خاطر اپنی چکنی چپڑی باتوں سے عوام کا دل لبھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن آگے کا منظر بھی اللہ کتاب اس طرح بیان کردیتی ہے ۔ ارشاد قرآنی ہے :’’ جب اُسے اقتدار حاصل ہو جاتا ہے، تو زمین میں اُس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہوتی ہے کہ فساد پھیلائے، کھیتوں کو غارت کرے اور نسل انسانی کو تباہ کرے حالاں کہ اللہ (جسے وہ گواہ بنا رہا تھا) فساد کو ہرگز پسند نہیں کرتا ‘‘۔موجودہ معاشرے میں یہ بھی ایک عام سی بات ہے۔ معاشرے کے باشعور لوگ اس صورتحال کو بدلنے کی حتی المقدور سعی تو کرتے مگر اصلاح کی کوششیں بار آور نہیں ہو تیں کیونکہ :’’ جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈر، تو اپنے وقار کا خیال اُس کو گناہ پر جما دیتا ہے ایسے شخص کے لیے تو بس جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے ‘‘۔ اقتدار کی رعونت ان کے پیروں کی زنجیر بن جاتی ہے۔

حکمرانوں کے مندرجہ بالا رویہ کی مثالیں آئے دن منظر عام پر آتی رہتی ہیں ۔ اس کی تازہ ترین مثال ہلدوانی کی غفور بستی کو اجاڑنے کی سازش ہے ۔ اس کے تحت تقریباً پچاس ہزار لوگوں کو بے خانماں کرنے کا منصوبہ رچا جارہا ہے۔ اس شر انگیزی میں ریلوے محکمہ اور ہائی کورٹ کو بھی ہمنوا بنالیا گیا ہے۔یہ سفاک سیاستداں اقتدار کےجنون میں باولے ہوگئے ہیں۔ ان کو سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو ان کا گھمنڈ آڑے آجاتا ہے۔ موجودہ حکمرانوں میں حدیث مبارک کے اندر بیان کردہ منافقین کی یہ چاروں صفات کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں ۔ر سول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : ’’چار خصلتیں جن کے اندر ہوں وہ پورا منافق ہے اورجن کے اندر ایک خصلت ہو اس کے اندر اسی کے بقدر نفاق ہے۔ وہ خصلتیں یہ ہیں: کہ جب بات کرےتو جھوٹ بولے۔ جب امانت دی جائے تو اس میں خیانت کرے۔ جب عہد کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے۔ جب تکرار کی نوبت آئے توگالی گلوج پر اترآئے‘‘ ۔ ان میں سے ہر خصلت موجودہ دور کے سیاستدانوں کا طرہ امتیاز ہے اور یہی عصرِ حاضر کا بہت بڑا فتنہ ہے ۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1238778 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.