شرم کے بارے میں

جوں جوں سائنس ترقی کرتی جا رہی ہے انسان کے اندر سے ویسے ویسےانسان کے اندر سے شرم و حیا ختم ہوتی جارہی ہے جب تک انسان کے اندر میں شرم و حیا ہوتی ہے تب تک وہ بے حیائی اور برے کاموں سے دور رہتا ہے اب ہمارے معاشرے کے اندر ہی دیکھ لیں کہ بھائی اپنی ماں بہن بیوی بیٹی کو بے پردہ بازار وغیرہ میں لیے پھرتا ہے ۔ بہن اور بیٹی وغیرہ کو لے کرسینما گھر لے کر چلا جاتا ہے اگر اس بھائی یا باپ کے اندر شرم و حیا ہوتی تو یہ اپنی ماں بہن بیٹی کو سینما گھر کیوں بھیجتا
. . . . . . . جیسا کہ فرمان مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہے اس کا مفہوم میں بیان کرتا چلوں
جب انسان کے اندر سے شرم و حیا ختم ہو جائے تو پھر جو چاہے وہ کرے
پیارے اسلامی بھائیو یہ فرمان سن کر دل رو پڑتا ہے
لوگوں کے اندر شرم و حیا اس حد تک ختم ہو چکی ہے کے اب انہوں نے مسجدوں کو سیر و تفریح کا ذریعہ بنالیا ہے
عورتیں درباروں پر آتی ہیں اور ان کے سر پر دوپٹہ تک نہیں ہوتا اور وہ اتنی مقدس جگہ پر بے حیائی اور بد نگاہ کا کام کرتی ہیں
وہ بزرگ جہنوں نے کبھی عورتوں کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا تھا آج وہی عورتیں ان کے مزاروں پر بد نگاہی اور بے حیائی کا کام کرتی ہیں یہ کام اس وجہ سے ہوتے ہیں کہ ان کے اندر سے شرم و حیا ختم ہو چکی ہوتی ہے
پیارے اسلامی بھائیو لوگوں کے اندر سے شرم و حیا اس حد تک ختم ہو چکی ہے کہ ان کے سامنے ان کی ماں بہن بیوی بیٹی گانےفلمےوغیرہ دیکھ رہی ہوتی ہیں اور وہ ان کو روکتے تک نہیں ہیں
پیارے بھائیوں ہمیں چاہیے کہ ہم ان کاموں کو روکے اگر ہم جاھل لوگوں کو سمجھائیں گے نہیں تو پھر کون آکے ان کو سمجھ آئے گا
اس طرح یہ جو فرقے ہیں وہابی مرزائی دیوبندی شیعہ یہ سب سنیوں کو ختم کرنے میں لگے ہوئے ہیں اس طرح ہمارے مسلمانوں کو شرم نہیں آتی وہ غیرمذہب مردوں کے ساتھ کھاتے پیتے ہیں اور ان کی عورتوں کے ساتھ مذاق کرتے ہیں
اگر ان کے اندر شرم ہوتی تو یہ کیوں غیر محرم عورتوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے اوران کے ساتھ مذاق کرتے
پیارے اسلامی بھائیو آج کل تو لوگ کمپنی کی مشہوری کے لیے عورت کو آگے کرتے ہیں اگر کوئی نئی چیز تیار ہوجائے تو عورتوں کو آگے بھیجتے ہیں تاکہ وہ ان کی کمپنی کی بنائی ہوئی چیز کی مشہوری کرے اور وہ عورتیں ہوتی بھی بے پردہ ہے
اس طرح موبائل فون کا غلط استعمال کرنا ماں باپ کے پاس بیٹھ کر فون کو غلط استعمال کر رہے ہوتے ہیں اور ساتھ میں ان کو بھی گانوں والی ویڈیو دکھا رہے ہوتے ہیں
نماز کا ٹائم ہو جاتا ہے لیکن نماز پڑھنے نہیں جاتے اور ماں باپ خود ساتھ بیٹھ کر گانوں والی ویڈیوز دیکھ رہے ہوتے ہیں
پہلے تو جو غریب ہوتا تھا وہ آدھے کپڑے پہنتا تھا لیکن آج کل یہ آدھے کپڑے فیشن بن چکے ہیں
اب امیر بھی آدھے کپڑے پہنتے ہیں اور ان میں عورتوں کا زیادہ ہاتھ ہے اور خوب بے حیائی کا کام کرتے ہیں باہر نکلتے ہیں تو ساتھ میں دوسروں کو بھی گناہ میں ڈالتے ہیں
پیارے اسلامی بھائیو ہمیں کسی بھی وقت شرم و حیا کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا نہیں چاہیے
ہے بے حیائی اور برے کاموں سے دور رہنے کے لیے بہت ہی پیاری تحریک دعوت اسلامی کو اپنائے
اگر کوئی داڑھی رکھ لیں تو کہتے ہیں کہ یہ مولوی بن گیا ہے
لوگ داڑھی نہیں رکھتے کہتے ہیں کہ ہمیں شرم آتی ہے لوگ شرم کرنے والے کاموں سے شرماتے نہیں ہیں اور جو سنت ہے اس کو ترک کرنے اس کو اپنانے میں کہتے ہیں کہ ہمیں شرم آتی ہے افسوس صد کروڑ افسوس ہمارے اندر سے کس حد تک شرم و حیا ختم ہو چکی ہے


 

Muhammad Soban
About the Author: Muhammad Soban Read More Articles by Muhammad Soban : 27 Articles with 32831 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.