ربنا ما خلقت ہذہ باطلا

امام رازی علوم عقلیہ اور حکمت و فلسفہ کے دلدادہ تھے، اس لیے وہ متکلـمین اسلام کی طرح حکمائے اسلام کے اقوال اور نقلی کی طرح عقلی دلائل بھی نہایت شرح و بسط کے ساتھ پیش کرتے تھے- امام صاحب کے زمانے میں بعض لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ امام صاحب نے تفسیر میں حکماء اور فلاسفہ کے اقوال اس کثرت سے شامل کر دیے ہیں کہ وہ بجائے تفسیر کے علوم عقلیہ کی کتاب بن گئی ہے !

اس کے جواب میں وہ تفسیر کبیر میں الاعراف آیۃ54 " بے شک تمہارا خدا وہی اللہ ہے جس نے آسمان و زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا" کی تفسیر کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
وربما جاء بعض الجہا ل و الحمقا وقال انک اکثرت فی تفسر کتاب اللہ من علم الہیئۃ والنجوم و ذالک علی خلاف المعتاد
کچھ جاہل واحمق میرے پاس آکے کہنے لگے کہ آپ نے کتاب اللہ کی تفسیر میں علم ہیئت ونجوم کا ذکر بہ کثرت کیا ہے اور یہ خلاف عادت ہے-

"اسکے جواب میں وہ فرماتے ہیں کہ اگر معترض اللہ کی کتاب کو بغور پڑھے تو اس پر خود اس اعتراض کی خرابی اور لغویت اچھی طرح واضح ہو جائے گی- پھر انہوں نے اسکا جواب اس طرح دیا:

1۔ اللہ تعالیٰ نے بار بار کے اعادے اور تکرار کے ساتھ اپنے علم،قدرت اور حکمت پر آسمان اور زمین کی بناوٹ،رات دن کی آمدورفت،روشنی اورتاریکی کی کیفیت،چاند سورج ستاروں کے حالات سے استدلال کیا ہے ، اس لیے اگر ان کے حالات پر غوروفکر کرنا اور ان پر بحث کرنا جائز نہ ہوتا تو اپنی کتاب کو ان سے کیوں بھردیتا۔

2۔ اللہ تعالیٰ نے غوروفکر کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا
افلم ینظرو االسّماء فوقھم کیف بنیناھا و زّینّاھا ومالھا من فروج ہ ق/6
یہ لوگ اپنے اوپر آسمان کو کیوں نہیں د یکھتے کہ ھم نے اس کو کیونکر بنایا اور اس کو کیونکر سنوارا ہے اور اس کے اندر کوئی رخنہ نہیں ہے-

علم ہیئت کے اس کے علاوہ اور کیا معنی ہیں کہ اللہ نے آسمانوں کو کیونکر بنایا۔

3۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کے پیدا کرنے سے زیادہ عظیم الشان کام ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ تخلیق وابداع کے عجائبات ، اجرام سماویہ میں انسانوں کے اجسام سے زیادہ اور مکمل تر ہیں ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ خدا نے اجسام انسانی میں غوروفکر کرنے کی ترغیب دی ہے، اس بنا پر جو چیز از روئے استدلال اس سے اعلیٰ اور عظیم تر ہوگی ، اس کے حالات پر غور کرنا اور اس کے عجائبات کا جاننا اور بھی زیادہ ضروری ہو گا-

4- اگر غورواستدلال ممنوع ہوتا تو خدا یہ کیوں کہتا -
و یتفکّرون فی خلق السّماوات و الارض ربّنا ما خلقت ھذا با طلا آل عمران/191
اور آسمان و زمین کی خلقت پہ غور کرتے رہتے ہیں( اور کہہ اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے رب تو نے یہ کارخانہ بے مقصد نہیں پیدا کیا-

5۔ کسی بھی علمی کتاب کے شرف و فضیلت کے معترف دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ، ایک وہ جو اس پر اجمالی یقین کرتے ہیں ، تفصیلی طور پہ اس کتاب کے دقائق و لطائف کا علم ان کو نہیں ہوتا- دوسرے وہ لوگ ہیں جو اس کتاب کے دقائق و لطائف سے تفصیلی طور پہ واقف ہوتے ہیں- پہلے گروہ کا عقیدہ اگرچہ قوت وکمال کے انتہائی درجہ کو پہنچا ہوا ہو تا ہے، لیکن دوسرے گروہ کا عقیدہ قوت و کمال میں اس سے بھی زیادہ بڑھا ہوا ہوتا ہے- اسکے علاوہ جس شخص کا علم اس کتاب کے دقائق و لطائف کے متعلق جس قدر زیادہ ہو گا، اسی قدر اس کتاب کے مصنف کی عظمت و جلالت کے متعلق اسکا اعتقاد زیادہ کامل ہوگا-

فلکیات کا علم دنیا کی حیثیت کو ریت کے ذرّے سے بھی حقیر تر ثابت کرتا ہے اور ایک غور کرنے والے کے دل سے اسکی محبّت کو نفی کرتا ہے اور اللہ کی عظمت و جلالت کی ایک ہلکی سی جھلک دکھتا ہے-درج ذیل لنک میں ایک ستارے کی زندگی کے چکر [ اسٹار لائف سائکل] کو جدید سائنس کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے- پہلی تصویرمیں ستارے کی جسامت پہ غور فرمایئے، یہ مشتری کے مدار سے بھی زیادہ بڑا ہے!! سبحان اللہ

جاری ہے

https://library.thinkquest.org/17940/texts/star/star.html

https://hubblesite.org/hubble_discoveries/hubble_deep_field/index.php

Voyage through space and galaxies
Tariq Zafar Khan
About the Author: Tariq Zafar Khan Read More Articles by Tariq Zafar Khan: 25 Articles with 43476 views I am a passionate free lance writer. Science , technolgy and religion are my topics. Ihave a Master degree in applied physics. I have a 35 + years exp.. View More