دو چہرے

انسان دو چہروں کےساتھ جیتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کوئ خوشی سے اور کوئ مجبوری میں۔

دو چہرے

انسان کو پہچاننا اس دور میں بہت مشکل ہے خلوص کا لبادا اوڑھ کر ہر کوئی فرشتہ بنا پھر رہا ہے سب کی طرح میں بھی یہی سمجھتی تھی کہ مبھے انسانوں کی پہچان ہے میں انسان کے اصل چہرے سے واقف ہوں میں سمجھتی تھی کہ انسان کو پہچاننا اتنا مشکل نہیں ہے جتنا آج کل سب نے بنا دیا ہے اب کچھ لوگوں کی وجہ سے ہر ایک کے خلوص پر شک کرنا تو نا انصافی ہے نہ جب آپکے پاس دینے کے لئے کچھ نہ ہو تو کسی کو کیا ضرورت ہے شرافت دکھانے کی ؟ لیکن میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ انسان کو دو چہروں میں ہی جینا ہوتا ہے چاہے کچھ ملے یا نہیں !
میں جاب کی تلاش میں یہا ں تک آئی تھی آج میرا انٹرویو تھا ۔ بابا کی بیماری کے بعد ایک میں ہی تھی جسے گھر کی ذمہ داری اٹھانی تھی دو تین جگہ پر انٹرویو دینے کے بعد مجھے مایوسی ہی ہوئی تھی اب ناجانے یہاں کیا ہونا تھا
’’ آپ اندر جاسکتی ہیں ’’ ریسیپشن پر موجود لڑکی نے مجھ سے کہا تھا
میں سر ہلا کر آفس کی طرف گئی تھی دروازے پر دستک دیکر میں نے اندر آنے کی اجازت مانگی تھی انھوں نے مجھے اجازت دی اور میں اندر داخل ہوئی تھی بے حد شاندار آفس تھا یہ امیر لوگوں کی بھی کیا زندگی ہوتی ہے نا ! جتنا ہمارا گھر ہوتا ہے اتنا بڑا تو صرف انکا آفس ہوتا ہے خیر میں سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی تھی
’’ سو مس ماہین آپ جانتی ہیں آپکی تعلیم اس جاب کے لئے ناکافی ہے’’ میرے سامنے بیٹھے شخص نے میری فائیل دیکھنے کے بعد کہا انکا لہجہ نرم تھا وہ درمیانی عمر کے تھے شاندار پرسنیلٹی کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت میں ایک رعب بھی تھا
’’ جی’’ میں اس کے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکی تھی
’’ اور آپ کے پاس کوئ تجربہ بھی نہیں ہے؟ ’’ اگلا سوال تھا شاید یہاں سے بھی مجھے مایوسی ملنی تھی
’’ جی’’
’’ پھر بھی آپ یہاں موجود ہیں یہ جانتے ہوئے کہ یہ جاب آپکے لئے نہیں ہے’’
’’ جی’’
’’ کیوں؟’’ ایک اور سوال تھا میں نے سر اٹھا کر انہہیں دیکھا تھا ان کے چہرے پر نرمی اور اپنائیت تھی
’’ کیونکہ مجھے اس جاب کی بہت ضرورت ہے’’ مجھے بس یہی جواب سوجا تھا
’’ اور اگر آپکو جاب نہ ملی تو آپکا کیا نقصان ہوگا؟’’
’’ میرے والد کا علاج رک جائے گا’’ اور اس سوچ نے ہی مجھے ڈرا دیا تھا
’’ آپ کل سے جوائن کر لیں’’ انہوں نے فائل میری طرف بڑھاتےہوئے کہا تھا اور میں حیرانی سے انہیں دیکھ رہی تھی
’’ اتنی حیران کیوں ہورہی ہیں؟ آپ کو اس جاب کی ضرورت ہے اور میں ضرورت مند کو خالی ہاتھ نہیں لوٹا سکتا’’
’’ شکریہ سر میں آپکو شکایت کا موقع نہیں دونگی’’ میں بہت خوش تھی مجھے اتنی اچھی نوکری مل گئی تھی گھر میں امی کو جب میں نے ساری بات بتائی تو انہوں نے سر کو بہت دعائیں دی تھی ایسے لوگ اس دنیا میں بہت کم ہوتے ہیں جنہیں دوسروں کی ضروریات کا خیال ہوتا ہے ورنہ یہاں تو ہر کوئی خودغرض بنا پھر رہا ہے جو دوسروں کی مدد بھی اپنے فائدے کے لئے کرتے ہیں
آفس میں سب بہت اچھا چل رہا تھا وہاں کا ماحول اور کام کرنے والے ساتھی بھی بہت اچھے تھے سلمان سر کی عادت بھی بہت اچھی تھی میں نے کبھی بھی انہیں غصے میں نہیں دیکھا تھا وہ ہم سب کا بہت خیال کرتے تھے یہاں تک کے غلطی ہونے کی صورت میں بھی وہ ہمیں آرام سے سمجھاتے تھے میں نے ان جیسا انسان آج تک نہیں دیکھا تھا غرور اور تکبر جیسی کوئی چیز نہیں تھی ان میں ۔
بابا کی طبیعت اچانک سے خراب ہوگئی تھی انہیں جگر کا کینسر تھا ڈاکٹر نے انکی زندگی کی کوئی خاص امید نہیں دلائی تھی بابا دو دن سے ہسپتال میں داخل تھے میں اس پریشانی میں آفس میں اپنی غیر حاضری کی وجہ بتانا بھول گئی تھی اس وقت میں ڈاکٹر سے مل کر آرہی تھی ڈاکٹر کے مطابق بابا کو خون کی ضرورت تھی تاکہ وہ وقتی صحت یاب ہوسکیں لیکن مسئلہ یہ تھا کہ بابا کا بلڈ گروپ نہیں مل رہا تھا میں بہت پریشان تھی اپنے کئی جاننے والوں سے رابطہ کر چکی تھی مگر افسوس کے علاوہ انکے پاس کچھ نہیں تھا میں اسی سوچ میں تھی جب میرے موبائیل پر سلمان سر کی کال آئی تھی
’’ مس ماہین آپ تین دن سے آفس نہیں آئیں نہ کوئی اطلعح دی ہے سب خیریت ہے ؟’’ وہ اپنے مخصوص نرم لہجے میں بولے تھے
’’ سوری سر میرے بابا ہسپتال میں داخل ہیں اسی پریشانی میں اطلاع کرنا بھول گئی تھی’’
’’ کیا ہوا انہیں سیریس تو نہیں ہے ؟’’ انکے لہجے میں پریشانی تھی
’’ نہیں سر وہ ٹھیک نہیں ہے خون کی ضرورت ہے اور وہ مل نہیں رہا’’
’’ کونسا گروپ ہے انکا ؟’’
’’ او پوزیٹیو ’’
’’ میں ابھی آتا ہوں ’’ انہوں نے فون بند کر دیا تھا اور مجھے ایک امید نظر آئی تھی شاید سر کے پاس کوئی بلڈ ڈونر ہوگا تھوڑی دیر بعد وہ آگئے تھے
’’ ڈاکٹر کہا ہے ؟’’ انہوں نے آتے ہی پوچھا تھا
میں انہیں ڈاکٹر کے پاس لے گئی تھی
’’ میں بلڈ ڈونیٹ کرنا چاہتا ہو آپ ٹیسٹ کرلیں ’’ انہوں نے ڈاکٹر سے کہا تھا انکے چہرے پر اطمنان تھا اور میرے چہرے پر حیرانی
’’ سر یہ آپ کیا کہہ ۔۔’’ انہوں نے میری بات کاٹ دی تھی
’’ مس ماہین یہ وقت ان باتوں کا نہیں ہے اس وقت آپکے فادر کی صحت سب سے زیادہ ضروری ہے ’’ وہ ڈاکٹر کے ساتھ اندر چلے گئے تھے
بابا کی طبیعت سمبھلنے کے بعد ڈاکٹر نے انہیں ڈسچارج کر دیا تھا سلمان سر نے بابا کی بیماری کا خرچہ کمپنی کے حصے میں ڈال دیا تھا اور مجھے بھی انہوں نے آفس سے کچھ دنوں کی چھٹیاں دے دی تھی اس عرصے میں وہ روزانہ بابا کی خیریت معلوم کرتے رہے تھے میرے دل میں انکی عزت مزید بڑھ گئی تھی
میں کئی دنوں بعد آفس گئی تھی جب سر نے مجھے اپنے آفس بلایا تھا
’’ سر آپنے مجھے بلایا’’ میں نے انکے آفس میں داخل ہوکر پوچھا تھا
’’ جی مس ماہین بیٹھئے’’ میں سامنے ہی ایک کرسی میں بیٹھ گئی تھی
’’ یہ آپکے لئے ’’ انہوں نے ایک لفافہ میری طرف بڑھایا تھا میں نے لفافہ لیتے ہوئے پوچھا
’’ یہ کیا ہے سر؟’’
’’ خود دیکھ لیں ’’ میں نے لفافہ کھولا تھا جس میں ایک نوٹس تھا جس کے مطابق میری تنخواہ میں پچاس فیصد اضافہ کیا گیا تھا
’’ سر یہ کیوں ؟ مجھے تو ابھی اتنا وقت بھی نہیں ہوا یہاں ’’
’’ پہلی بات تو یہ کہ آپ ایک محنتی لڑکی ہیں اس لئے یہ آپکا حق ہے اور دوسری بات یہ کہ میں اچھی طرح جانتا ہوں آپکی تنخواہ سے آپکا گزارا بہت مشکل سے ہوتا ہے اس لئے آپکے لئے یہ ضروری تھا ’’ وہ اپنے مخصوص نرم لہجے میں کہہ رہے تھے
’’ شکریہ سر آپ بہت اچھے ہیں ’’ میں نے دل سے انکی تعریف کی تھی
’’ آپ بھی بہت اچھی ہیں اب یہ بتائیں کہ اس خوشی میں آپ ہمیں ٹریٹ کب دے رہی ہیں ؟’’ وہ دوستانہ انداز میں کہہ رہے تھے اور مجھے انکا انداز بہت اچھا لگا تھا
’’ ضرور سر آج کا لنچ میری طرف سے’’
’’ لنچ تو میں نےگھر میں کرنا ہے ڈنر آج اپکی طرف سے ہوگا وہ بھی آپکے گھر ’’
’’ مجھے بہت خوشی ہوگی میں آپکا ویٹ کرونگی آج ’’
’’ میں ضرور آؤنگا’’ وہ مسکرائے تھے عجیب سی کشش تھی ان کی مسکراہٹ میں ، میں کچھ دیر کےلئے کھو سی گئی تھی پھر خیال آتے ہی اجازت لے کر واپس آگئی تھی
اس شام میں نے دل کھول کر کھانے کی تیاری کی تھی سر کو بھی کھانا بہت پسند آیا تھا بابا اور سر کے درمیان بھی اچھی خاصی دوستی ہوگئی تھی انکے خلوص اور اخلاق نے ہم سب کو بے حد متاثر کیا تھا آج کل کے دور میں اس طرح کے لوگ واقعی بہت کم ہوتے ہیں اس دن کے بعد میرے اور سر کے درمیان دوستی اور بے تکلفی ہوگئی تھی وہ کبھی کبھی ہمارے گھر بھی آتے بابا کو ہسپتال لے جانے کی ذمہ داری بھی انہوں نے لے لی تھی کبھی کبھی لگتا تھا کہ یا تو وہ بہت عظیم انسان ہیں یا شاید وہ انسان نہیں کوئی بلکہ انسان کے روپ میں فرشتہ ہیں اتنی بے تکلفی کے باوجود انہوں نے میرے احترام میں کوئی کمی نہیں لائی تھی انکی آنکھوں اور انکے ہر انداز میں میرے لئے عزت تھی اور اسی بات نے میری نظر میں انہیں معتبر کر دیا تھا
اس دن میں بازار سے گھر لوٹی تھی جب سر گھر آئے تھے میں انکے لئے چائے بنانے کچن میں گئی تھی جب باہر سے انکی باتوں کی آواز آرہی تھی
’’ میں آج آپ سے ایک ضروری بات کرنے آیا ہو’’ سر نے کہا تھا
’’ جی سلمان بیٹا بولو’’ بابا کی آواز تھی
’’ آپ جانتے ہیں میں اکیلا رہتا ہوں ماما پاپا تین سال پہلے ایک کار ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا تھا ’’ وہ رکے تھے
’’ میں آج آپ سے کچھ مانگنے آیا ہو امید ہے آپ مجھے مایوس نہیں کریں گے’’ میں الجھ گئی تھی ہمارے پاس انہیں دینے کے لئے تو کچھ نہیں تھا پھر وہ کیا مانگنے آئے ہیں
’’ سلمان بیٹا ہمارے پاس تو ایسا کچھ نہیں جو ہم تمہیں دے سکیں ’’ بابا نے کی آواز تھی
’’آپکے پاس ہے ایسا کچھ جسکی مجھے ضرورت ہے’’ میں مزید الجھ گئی تھی بابا اور امی بھی الجھ گئے تھے
’’ کیا؟’’
’’ ماہین ! میں ماہین کا ہاتھ مانگنے آیا ہوں مجھے خوشی ہوگی اگر آپ مجھے اس قابل سمجھے گیں ’’ انہوں نے دھماکہ کیا تھا جس نے میرے دل کی دنیا ہلا کر رکھ دی تھی بابا اور امی خوش تھے اور میں حیران تھی
رات بارہ بجے کے قریب میرے موبائیل میں سلمان سر کی کال آئی تھی آج پہلی بار انکی کال نے میرے اندر عجیب سا احساس پیدا کیا تھا
’’ ہیلو’’ آہستہ آواز میں میں نے کہا تھا
’’ ماہین ’’ دل زور سے دھڑکہ تھا یہ پہلی بار تھا جب میرا نام لیا تھا انہوں نے ورنہ ہمیشہ مس ماہین ہی کہا تھا
’’ جی’’ میرے تو سارے الفاظ ہی ختم ہوگئے تھے
’’ تم خوش ہونا ؟’’ ایک سوال تھا ایک امید ایک ڈر تھا ان کے لہجے میں
’’ جی‘‘ مجھے اب بھی کوئی لفظ نہ ملا تھا
’’ میں بھی بہت خوش ہوں ’’ ان کا لہجا ہی انکی خوشی کی گواہی دے رہا تھا پھر ناجانے کتنا وقت گزرا تھا ہم دونوں تو احساس نہیں ہوا تھا کی صبح کا سورج کب طلوع ہوا تھا

آج میں لال جوڑے میں تیار انکے گھر اور انکے کمرے میں موجود تھی میں اس وقت خود کو دنیا کی خوش نصیب لڑکی سمجھ رہی تھی جسے سلمان جیسا ہمسفر ملا تھا اتنا خیال رکھنے والا ، رحم دل ، پر خلوص اور ایک باکردار انسان آج میرا نصیب بن گیا تھا مجھے ساری عمر کے لئے اسکا ساتھ مل گیا تھا اب خواہش کرنے کو اور کیا رہ گیا تھا
کمرے کا دروازہ کھلا تھا اور پھر بند ہوا تھا وہ میری طرف آرہے تھے اور مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں نظر اٹھا کر انہیں دیکھ سکو ں وہ میرے قریب آکر بیٹھے تھے
’’ کتنی خوبصورت ہو تم ’’ عجیب سا نشہ تھا انکے لہجے میں ، ایک عجیب سی مہک تھی جو ان کے وجود سے آرہی تھی
’’ بہت محنت کرنی پڑی تمہیں حاصل کرنے کے لئے ڈئیر’’ عجیب بہکا ہوا لہجہ تھا وہ اچانک میرے قریب ہی گرے تھے میں نے نظر اٹھا کر انہیں دیکھا تھا اور میں نظر ہٹانا بھول گئی تھی
’’ تم’’ میرا ہاتھ پکڑا تھا انہوں نے ’’ تمہیں پتہ ہے روز تمہارے خواب دیکھے تھے میں نے تمہارا یہ خوبصورت چہرہ پہلے دن سے میری نیندیں اڑا گیا تھا ’’ انہوں نے میرے چہرے کو چھوا تھا اور اب مجھے احساس ہوا تھا کہ یہ مہک کیسی تھی یہ نشہ کیسا تھا انہوں نے ڈرنک کی تھی میں حیرانی کی انتہا میں تھی میں فوراً بیڈ سے اٹھی تھی جب انہوں نے جاہلانہ انداز میں مجھے اپنی طرف کھینچا تھا
’’ نہ نہ اتنی محنت کے بعد اب میں تمہیں جانے نہیں دے سکتا ’’ وہ نشے میں گم تھے اور میں دکھ اور اذیت کی انتہا پر تھی
صبح بال بناتے ہوئے میرے بازوں پر لال نشانات صاف نظر آرہے تھے اور سلمان بلکل نارمل تھے انکے چہرے پر کوئی شرمندگی نہیں تھی بابا اور امی ناشتہ لائے تھے میں اور سلمان ایک ساتھ ہی ان سے ملے تھے
’’ یہ تمہارے بازو پر نشان کیسے ہیں ؟؟ ’’ امی نے پوچھا تھا اور میں نے سلمان کی طرف دیکھا کتنا بے تاثر چہرہ تھا
’’ کچھ نہیں امی وہ چوڑیوں کی وجہ سے ہوگئے ہیں آپکو تو معلوم ہے مجھے انکی عادت نہیں ہے’’ میں نے امی کو مطمئن کر دیا تھا انکے جانے کے بعد سلمان نے مجھ سے کہا تھا
’’ یہ تم اپنے ماں باپ کو ان زخموں کے نشان دکھا کر کیا بتانا چاہتی ہو کہ میں بہت ظلم کرتا ہو تم پر ’’ کتنا بدلہ ہوا لہجہ تھا
’’ نہیں وہ تو بس انکی نظر پڑ گئی تھی ’’ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کہوں
’’ آج نظر پڑ گئی ہے آئندہ نہیں ہونا چاہیے ایسا’’ وہ کہہ کر جا چکے تھے اور میں سوچ رہی تھی کی کہ کیا آئندہ بھی ایسا ہوگا ؟
اور مجھے اسکا جواب بھی مل گیا تھا وہ ہر روز رات میں ڈرنک کر کے گھر آتے تھے چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہاتھ اٹھانا مارنا روز کا معمول بن گیا تھا مگر وہ نشانات میں نے دوبارہ کسی کو دیکھنے نہیں دئیے تھے وہ عزت احترام جو شادی سے پہلے مجھے انکی آنکھوں میں نظر آتا تھا اب وہ مجھے صرف تب نصیب ہوتا تھا جب کوئی تیسرا شخص ہمارے ساتھ ہوتا تھا

ہماری شادی کو تین سال گزر گئے تھے ہماری ایک بیٹی بھی تھی
آج ہم نے ایک پارٹی میں جانا تھا میں تیار ہوکر باہر آئی تھی جہاں سلمان گاڑی میں میرا انتظار کر رہے تھے
میری تیاری پر ایک جانچتی نظر ڈال کر انہوں نے گاڑی آگے بڑھائی تھی
پارٹی بہت بڑے پیمانے کی تھی شہر کے تقریباً تمام بزنس مین اس پارٹی میں اپنی بیگمات کے ساتھ موجود تھے
ہر کوئی اپنی بیگمات کو دوسرے مردوں سے ملا کر ان سے اپنے بزنس کے معاملات حل کر رہا تھا ان کے لئے انکی بیگمات اے۔ٹی۔ایم کارڈ کی طرح تھی جنہیں وہ کیش کرتے تھے میں اب یہ سب دیکھنے کی عادی ہوگئی تھی کیونکہ میں بھی اب انہیں کا حصہ تھی لیکن یہ سلمان کا احسان تھا کہ انہوں نے مجھے کیش نہیں کیا تھا میں انکا اے۔ٹی۔ایم نہیں تھی لیکن میں انکی شخصیت کی خوبصورتی میں اضافہ کرنے والا ایک ڈیکوریشن پیس تھی ہم دونوں کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ ہم یہاں سب سے آئیڈیل کپل تھے ہماری انڈرسٹینڈنگ اور ہماری جوڑی کی سب مثالیں دیتے تھے
مسکراہٹ کبھی ہمارے ہونٹوں سے دور نہ ہوئی تھی ہم محبت کا منہ بولتا ثبوت تھے
وہ کمرے میں ڈرنک کر رہے ہیں یہ انکا روز کا معمول ہے اور میں لان میں بیٹھی آسمان کو دیکھ رہی ہوں بابا اور امی ہماری شادی کی کامیابی پر بہت خوش ہیں یہ سوسائٹی ہمیں ایک آئیڈیل کپل مانتی ہے اور حقیقت اسکے بلکل الٹ ہے میرے جسم میں آج بھی زخموں کے نشان ہیں میرے کمرے میں شراب کی بدبو پوری رات ہوتی ہے آج گزرا ہوا سب یاد کرکے ایک بات تو میری سمجھ میں آگئی ہے
’’ انسان دو چہروں کے ساتھ جیتا ہے ایک وہ جو باہر کی دنیا دیکھتی ہے اور ایک وہ جو گھر میں دکھتا ہے ایک انسان میں دو انسان جیتے ہیں ایک جو اداکار ہوتا ہے اور دوسرا اسکا اصل ’’

سلمان بھی دو چہروں کے ساتھ جی رہے ہیں باہر ایک عظیم انسان اور گھر میں ایک ظالم
میں بھی دو چہروں کے ساتھ جی رہی ہوں باہر ایک خوش نصیب اور زندگی سے بھرپور انسان اور گھر میں ؟ یہاں تو میں انسان ہی نہیں ہو۔
’’ انسان آئینے کے دو رخوں کی طرح ہوتا ہے سامنے صاف شفاف اور پیچھے سے اتنا ہی میلا’’
( ختم شد)

 

Ujala
About the Author: Ujala Read More Articles by Ujala: 3 Articles with 6377 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.