کشکول

رنگ و نور .سعدی کے قلم سے
اﷲ تعالیٰ کادین یقیناً غالب آئے گا. جی ہاں کسی کو شک کرنے کی ضرورت نہیں، دین اسلام ماضی میں بھی غالب آیا اور آئندہ بھی غالب ہو گا. اور آج بھی جو مسلمان اس دین پر پورا عمل کر رہے ہیں وہ عزت اور شان کی زندگی گزار رہے ہیں. دین کے راستے میں آنے والی آزمائشیں اور تکلیفیں، ناکامی نہیں، کامیابی کی ضمانت ہوتی ہیں. اچھا اپنی بات کو تھوڑا سا روک کر پہلے ایک واقعہ پڑھتے ہیں.

مکّہ مکرمہ میں دین کی دعوت چل رہی تھی. خاموشی کے ساتھ، چپکے چپکے،اندر ہی اندر. مشرکین مکّہ اس دعوت اور محنت کے خلاف پوری طرح بیدار تھے،جسکے بارے میں پتا چلتا ہے کہ مسلمان ہوا ہے تو اُسے بہت ستاتے. مسلمان چھپ چھپ کر عبادت کرتے تھے. خوش نصیب روحیں جمع ہو رہی تھیں، مسلمانوں کی تعداد اڑتیس تک پہنچ چکی تھی. جی ہاں پوری دنیا میں کُل اڑتیس مسلمان. اتنی کم تعداد مگر جوش اور حوصلہ دیکھیں کہ سیدنا ابو بکر صدیق(رض) کا ایک ہی اصرار ہے کہ . یا رسول اﷲﷺ اب ہمیں کُھل کر کام کرنا چاہئے. دو کم چالیس افراد کی جماعت اور کُھل کر کام. اﷲ اکبر کبیرا. بے شک انسان کے دل سے دنیا کی خواہشات ختم ہو جائیں تو وہ بہت بہادر اور طاقتور بن جاتا ہے. یقین نہ آئے تو تجربہ کر کے دیکھ لیں، ابھی سچے دل سے شہید ہونے کا عزم کریں اور شہادت کا راستہ پکڑیں. پھر نہ مایوسی قریب آئے گی اور نہ کم ہمتی. نہ کوئی غم ستائے گا اور نہ کوئی پریشانی. پلاٹوں پر قبضے کے لئے عدالتوں کے چکر لگانے والے یہ بات نہیں سمجھ سکتے. محبوبہ کو راضی کرنے اور پھنسانے کے لئے لمبے لمبے وظیفے کرنے والوں کو اس کی سمجھ نہیں آسکتی. لوگوں سے عزت حاصل کرنے کے لئے طرح طرح کی انگوٹھیاں، تعویذات اور عملیات باندھنے والے بے چاروں کو کیا پتا؟. مالدار ہونے کے لئے چلّے کاٹنے اور ویزوں، اقاموں کے پیچھے دوڑنے والوں کو کیا خبر؟. دنیا کی ہر خواہش انسان کو کمزور کرتی ہے، پریشان کرتی ہے، اور کم ہمت بناتی ہے. وجہ یہ ہے کہ یہ دنیا فانی ہے. آپ اپنے پسند کی بلڈنگ بنالیں مگر رہنا قبر میں ہی پڑے گا.یا اﷲ ہم سب کو سمجھ نصیب فرما. حضرت صدیق اکبر(رض) کا اصرار تھا کہ اب ہماری تعداد ماشا اﷲ کافی ہو چکی ہے ہمیں کھلم کھلا دعوت دینی چاہئے اور کعبہ شریف میں سب کے سامنے عبادت کرنی چاہئے. بارگاہ رسالت سے جواب ارشاد ہوتا تھا: یا ابا بکر انا قلیلٌ
اے ابو بکر! ابھی ہم تھوڑے ہیں

مگر قرآنِ پاک نازل ہو رہا تھا. قرآن پاک اپنے ماننے اور سمجھنے والوں کو بہت بہادر بنا دیتا ہے. اور جناب رسول اﷲﷺ کی مبارک صُحبت تھی. مکہ والے صحابہ کرام بھی کتنے خوش نصیب اور اونچی قسمت والے تھے کہ انہیں حضرت آقا مدنیﷺ کی صُحبت مبارکہ زیادہ نصیب ہوتی تھی. حضرت ابوبکر(رض) کا جذبہ اور عزم اپنی آخری حدوں کو چُھو رہا تھا. بالآخر کھلم کھلا دعوت کی اجازت مل گئی.

اﷲ اکبر کبیرا!کیسا عجیب منظر ہو گا. ساری دنیا کفر سے سیاہ تھی اور یہ چند روشن روحیں کعبہ شریف میں جمع ہورہی تھیں. آقا مدنیﷺ اور آپ کے اڑتیس جانثار صحابہ کعبہ شریف میں تشریف لے آئے. مشرکین کا ہجوم تھا، حضرات صحابہ کرام بکھر بکھر کر بیٹھ گئے. لیجئے امتِ مسلمہ کی طرف سے اسلام کا پہلا علانیہ خطبہ شروع ہو رہا ہے. حضرت صدیق اکبر(رض) نے کھڑے ہو کر تمام لوگوں کو اﷲ تعالیٰ کی طرف اور رسول اﷲﷺ کی طرف دعوت دی. توحید اور رسالت کی دعوت. جی ہاں سچے اسلام کی دعوت. مشرکین نے فوراً حضرت صدیق اکبر(رض) پر حملہ کر دیا. خود اُن کو اور باقی تمام مسلمانوں کو بہت تشدّد کا نشانہ بنایا. اﷲ اکبر کبیرا. کامیاب لوگ ناکام لوگوں کے ہاتھوں سے مارے پیٹے جارہے ہیں. کوئی ہے جو اس منظر سے کامیابی اور ناکامی کا مفہوم سمجھ سکے؟. مسجد حرام، کعبہ شریف کا پڑوس اور مسلمانوں کی آہیں اور درد بھری سسکیاں. اُس دن مسلمانوں کو بہت سخت ماراگیا. خصوصاً صدیق اکبر(رض). اُن پر تو مشرکین ایسے ٹوٹے کہ اُن کو گویا کہ روند ڈالا. عتبہ بن ربیعہ نے اپنے جوتوں کے ساتھ اور جوتے جوڑ کر اُن کو بھاری اور وزنی کر دیا اور پھر یہ جوتے حضرت صدیق اکبر(رض) کے مبارک چہرے پر تابڑ توڑ برسنے لگے. وہ مشرک آپ(رض) کے پیٹ پر چڑھ کر اُچھل کود رہا تھا اور چہرے پر جوتے برسا رہا تھا. صدیق اکبر(رض) کا چہرہ مبارک سوج گیا.
حتی ما یُعرف وجہہ من انفہ
چہرہ اتنا سوج گیا کہ ناک اور چہرہ ایک برابر ہوگئے.
رضی اﷲ عنہ، رضی اﷲ عنہ،رضی اﷲ عنہ.

اے صدیق اکبر (رض)! آپ کی عظمت،قربانی اور ایمان کو سلام. بے شک آپ کے ہم سب مسلمانوں پر بہت احسانات ہیں. سیدنا ابو بکر صدیق(رض) کی قوم ’’بنو تیم‘‘ والے دوڑ کر آئے انہوں نے مشرکین کو ہٹایا اور صدیق اکبر(رض) کو چادر میں ڈال کر اُن کے گھر لے گئے. سب کو یقین تھا کہ یہ بس چند سانسوں کے مہمان ہیں. قبیلے والے اور والد محترم اس کوشش میں تھے کہ کسی طرح تھوڑا سا ہوش آجائے، بالآخر ہوش آگیا اور صدیق کی زبان سے پہلا جملہ نکلا:
’’مافعل رسول اﷲﷺ ‘‘
رسول اﷲﷺ کا کیا حال ہے؟

یہ جملہ سن کر قوم والے بُرا بھلا کہنے لگے اور وہاں سے اٹھ گئے. اور اُن کی والدہ سے کہہ گئے کہ ہم تو جاتے ہیں آپ ان کو کچھ کھلانے پلانے کی کوشش کریں. لوگ چلے گئے. محبت کرنے والی ماں بیٹے پر جُھک پڑی کہ بیٹا کچھ تو کھالو. چند گھونٹ تو پی لو. جواب میں بس ایک ہی جملہ کہ:
’’رسول اﷲﷺ کا کیا حال ہے؟‘‘
ماں نے کہا بیٹا! مجھے اُن کا کچھ علم نہیں. فرمایا امی جی آپ اُم جمیل بنت خطاب رضی اﷲ عنہا کے پاس جاؤ اور اُن سے رسول اﷲﷺ کا حال پوچھ لاؤ. غمزدہ ماں جلدی سے اُم جمیل(رض) کی طرف نکلی،جا کر کہا ابو بکر پوچھتے ہیں کہ محمد بن عبداﷲ﴿ﷺ ﴾ کا کیا حال ہے؟ خوف کا زمانہ تھا، احتیاط کا حُکم تھا،انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا اگر تم کہو تو میں تمہارے ساتھ تمہارے بیٹے کے پاس چلتی ہوں. مسلمان بہن نے آکر دیکھا کہ صدیق اکبر(رض) تو زخموں سے روندے پڑے ہیں. خطّاب کی بیٹی ، مستقبل کے فاروق اعظم کی بہن، اُم جمیل. جی ہاں فاطمہ بنت خطاب. جو چند دنوں بعد اپنے بھائی عمر بن خطاب کے اسلام لانے کا ذریعہ بنیں. کیسی باہمت! مگر اپنے مسلمان بھائی کو زخموں سے چُور دیکھ کر تڑپ اٹھیں اور بلند آواز سے مشرکین کو بددعائیں دینے لگیں. صدیق اکبر(رض) نے پوچھا:
’’فما فعل رسول اﷲ ﷺ ‘‘
یعنی میری فکر چھوڑیں یہ بتائیں کہ رسول اﷲﷺ کا کیا حال ہے؟ انہوں نے اشارے سے عرض کیا کہ آپ کی والدہ سُن رہی ہے. ارشاد فرمایا! اِن سے کوئی خطرہ نہیں. اُم جمیل(رض) نے خوشخبری سنائی:
سالم،صالح
کہ آقا مدنیﷺ خیریت اورسلامتی کے ساتھ ہیں.

پوچھا! کہاں تشریف رکھتے ہیں؟ عرض ہوا ’’دارالارقم ‘‘ میں. فرمایا میں نے اﷲ تعالیٰ سے عہد کیا ہے کہ جب تک رسول اﷲﷺ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوں گا ، نہ کچھ کھاؤں گا اور نہ پئوں گا. دونوں خواتین نے عرض کیا کچھ انتظار کیجئے. اس وقت لوگ دیکھتے ہیں. جب لوگ گھروں میں دبک گئے تو زخمی صدیق اپنی والدہ کے سہارے گھسٹتے ہوئے آقا مدنیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے. حضور اقدسﷺ نے اس حالت میں دیکھا تو آپ کو لپٹا لیا اور بوسے نچھاور فرمائے، باقی مسلمان بھی محبت کے ساتھ آپ پر ٹوٹ پڑے. اﷲ اکبر کبیرا. کَل مشرک ظلم اور نفرت کے ساتھ ٹوٹ پڑے تھے. اور آج مسلمان محبت کے ساتھ نچھاور ہورہے تھے. صدیق اکبر(رض) نے جب آقا مدنیﷺ کو اپنے اوپر روتے دیکھا تو عرض کیا. میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان یا رسول اﷲﷺ! مجھے کوئی تکلیف نہیں بس اُس فاسق﴿عتبہ بن ربیعہ﴾ نے میرے چہرے کو تھوڑا سا زخمی کیا ہے. یہ میری امی جان ہیں انہوں نے میرے ساتھ بہت بھلائی کی ہے. آپ تو یارسول اﷲﷺ بہت برکت والے ہیں. آپ ان کو اسلام کی دعوت دیجئے اور اﷲ تعالیٰ سے اِن کے لئے دعا فرمائیے کہ وہ انہیں آپ کی برکت سے جہنم کی آگ سے بچالے. رسول اﷲﷺ نے اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگی. اور اپنے صدیق (رض) کی والدہ کو دعوت دی تو وہ فوراً مسلمان ہو گئیں. رضی اﷲ عنہا.

اس واقعہ میں ہم سب مسلمانوں کے لئے بہت سے ’’اسباق‘‘ ہیں. مگر آج یہ مبارک ’’واقعہ‘‘ اُن اﷲ والے دیوانوں کے لئے ہے جو دو چار دن بعد اپنے ’’مرکز‘‘میں جمع ہوکر’’تجدید عہد‘‘ کریں گے. یہ کون لوگ ہیں؟.

اس زمانے میں پورے دین کی دعوت دینے والے. ماشا اﷲ
جہاد اور نماز کے احیائ کی اذان دینے والے. ما شا اﷲ
سترہ سو شہدائ کرام کے ہم پیالہ ساتھی. ماشا اﷲ
مسجدوں اور جیلوں کوآباد کرنے والے دیوانے. ماشا اﷲ
مسلمانوں کی خدمت کرنے والے فقرائ. ماشا اﷲ
کافروں سے جہاد کرنے والے مجاہدین. ماشا اﷲ
غزوہ بدر سے سبق اور مثال لینے والے اہل عزیمت. ماشا اﷲ
غزوہ اُحد کے زخموں میں بلندی ڈھونڈنے والے اہل ایمان. ماشا اﷲ
حضرات صحابہ کرام اور خلفائے راشدین کے نقش پا پر سرپٹ دوڑنے والے. ماشا اﷲ
حضرت عبداﷲ بن مبارک(رح) کی فکر کے امین. ماشا اﷲ
خلافت کے قیام کے لئے اپنے لہو سے جدوجہد کرنے والے. ماشا اﷲ
نور الدین زنگی(رح) اور صلاح الدین ایوبی(رح) کی طرز اپنانے والے. ماشا اﷲ
حضرت سید احمد شہید(رح) سے جہاد اور روحانیت سیکھنے والے. ماشا اﷲ
مسکینوں، یتیموں اور اسیروں کی خدمت کرنے والے. ماشا اللہ

یہ ایک چھوٹا سا قافلہ ہے. ماضی کے قافلوں کی مبارک زنجیر کی ایک چھوٹی سی کڑی. عشق رسولﷺ میں جینے مرنے والا قافلہ. اب تک اﷲ تعالیٰ نے اس قافلے کی بہت نصرت فرمائی. شاید ہی اسلام کا کوئی دشمن ایسا ہو جو انہیں اپنا دشمن نہ سمجھتا ہو. الحمدﷲ کفر کے ہر ایوان میں ان کا نام دہشت کی علامت ہے.
ترھبون بہ عدو اﷲ وعدوکم.

جو کچھ ہوا صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ کے فضل اور نصرت سے ہوا. آئندہ جو کچھ ہو گا اﷲ تعالیٰ ہی کے فضل اور نصرت سے ہوگا. اپنے دلوں پر دنیا کا زنگ نہ لگ جائے. شہادت کا راستہ بھول کر دنیا پرستی کی دلدل میں نہ پھنس جائیں. اپنے گناہوں کی وجہ سے مبارک قافلے سے محروم نہ ہو جائیں. بس انہیں باتوں کی فکر لے کر انشا اﷲ دیوانے جمع ہوں گے. خوب تلاوت ہوگی، پُرنور بیانات ہوں گے، پر سوز دعائیں ہوں گی. ایمان افروز نظمیں اور نعرے ہوں گے. ارے خوش نصیب جوانوں. تم سب کو ایسی جوانی اور ایسی جماعت مبارک ہو.

بس ایک گزارش ہے . جب تمہارا دل تمہاری آنکھوں کو اشارہ کر دے. اور تمہاری آنکھیں آنسوؤں کو ٹپکنے کی اجازت دے دیں. اورتمہاری دعائیں عرش کا راستہ دیکھ لیں تو اس وقت اپنے اس فقیر بھائی کو بھی یاد کر لینا. ہاں کچھ مقبول دعائیں سعدی فقیر کو بھی دے دینا. وہ بھی تو اپنا’’کشکول‘‘اپنے رب کے سامنے تمہارے لئے پھیلائے بیٹھا ہے. اور دعا کر رہا ہے کہ. یا اﷲ! اس اجتماع میں شرکت کرنے والے تمام افراد کی مغفرت فرما. ان سب کوجہنم اور نفاق سے برأت نصیب فرما. ان سب کوایمان کامل، جنت الفردوس. اوردنیا وآخرت کی حسنات عطا فرما.آمین یا ارحم الراحمین.
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد وعلیٰ الہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 197377 views A Simple Person, Nothing Special.. View More