اب بس کر دو

شادی جہاں زندگی کا اہم ترین اورنہایت خوشگوار حصہ ہے اور خوشی کی یہ فضا یقیناجاں فزا ہوتی ہے۔ وہیں اس موقع پر غیرشرعی رسم ورواج عروج پر پہنچ جاتی ہیں جن کے باعث کافی رشتہ داروں اور عزیزوں میں دوریاں پڑنے کا بھی امکان ہوتا ہے۔ عصر حاضر میں معاشرے میں ایسی ہی کئی اور نئی رسومات نے بھی جنم لیا۔

میرا گذشتہ روز ایک شادی پر جانے کا اتفاق ہوا اور میں نے اپنے قریب بیٹھے لوگوں کی باتیں سنیں کہ:آپ نے دولہاکو کتنی سلامی دینی ہے ، جس سے سوال کیا گیا اس کے بولنے سے پہلے ہی اور ساتھی بولا کہ جب آپ کی شادی ہوئی تھی تو دولہا آپ کو 20ہزار روپے سلامی دے کر گیا تھا تو میرے خیال سے آپ کو 25یا 30ہزار سلامی دینی چاہیے ۔

اس رسم کی وجہ سے کہ فلاں نے مجھے اتنے دیئے تھے اور مجھے اس کو اس سے زیادہ رقم دینی چاہیے کی وجہ سے دوست کو دوست سے دور اور رشتہ دار کو رشتہ دار سے دور کردیا ہے جیسے ہی آج کسی کو اس کا کوئی عزیز یادوست اپنی شادی کا پیغام دینے آتا ہے(یعنی شادی کا کارڈ آتا ہے) تو سب سے پہلی فکر اس کو یہ لگتی ہے کہ سلامی کا کیا کرنا ہے۔کتنی سلامی دینی ہے اور کہاں سے دینی ہے جیسا کہ آج مہنگائی نے کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اس مہنگے دور میں غریب تو یہ سوچتا ہے کہ میں اس کو کہاں سے دو ں اور اکثر احباب اس رسم ورواج کی وجہ سے شرم کے مارے اپنے عزیز کی شادی پر نہیں جاتے۔ اس کی وجہ سے دلوں میں دوریاں پیدا ہورہی ہیں ایک اور جگہ میں نے دیکھا کہ دولہا کے گھر کا ایک فرد دولہا کے ساتھ اسٹیج کی زینت بنا بیٹھا ہے تو میں نے پوچھا کہ یہ شخص اسٹیج پر کاپی اور پنسل ہاتھوں میں تھام کر کیا کررہا ہے تو مجھے ایک ساتھی نے بتایا کہ دولہا کو جو لوگ سلامی کی رقم دے کر جارہے ہیں تو وہ رقم یہ شخص اس کاغذ کے ٹکڑوں پر نوٹ کرکے نسل درنسل یاد رہنے والی تاریخ کا حصہ بنارہا ہے کہ فلاں نے ہماری شادی پر اتنے پیسے دیئے ہیں اور ہم نے آئندہ اس کی شادی پر اتنے پیسے دینے ہیں اگر اس سے زیادہ پیسے نہ دیئے تو لوگ ہمیں کیا کہیں گے ہماری ناک کٹ جائے گی اور پھر یہ رسم انا کا بھی مسئلہ بنا دیتی ہے۔اس رسم کی وجہ سے یا تو کسی کو بہت عزت ملتی ہے یا پھر کسی کے حصہ میں تنقید ہی باقی رہ جاتی ہے ۔

خدارا ! ہمیں ان غیر شرعی رسموں کو چھوڑ دینا چاہیے اور اسلام جو اوصاف اپنے پیروکاروں میں دیکھنا چاہتا ہے وہ یہ ہیں کہ وہ اعتدال پسند ہوں،میانہ روی اختیار کرنے والے ہوں ،لغو رسموں سے بچتے ہوں، نمائشی اور انا کے مسئلوں سے انہیں کوئی سروکار نہ ہو معروف یعنی بھلے طریقہ پر چلنے والے ہوں۔
 
ضروری ہے کہ کوئی بھی بات یا رسم شرعی حدود سے متجاوز اور اسلام کی عام تعلیمات کے خلاف نہ ہو، اسی لیے اسلام نے شادی کے موقع پر تقویٰ اختیار کرنے کی سخت تاکید کی ہے ۔ گویا اسلام کے نزدیک شادی اس خوشی کا نام نہیں ہے جس میں آدمی خدا کو بھول جائے اور من مانی رسومات کرنے لگے بلکہ اس خوشی کا نام ہے جس میں وہ خداشناسی اور خدا خوفی کا ثبوت دے اور دوسروں کے لیے مشکلات پیدا کرنے والے نہیں بلکہ آسانیاں پیدا کرنے والے ہوں۔

معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ذہن سے یہ تصور ہی نکل گیا ہے کہ ہم یہ جو غیر شرعی رسم ورواج اپنی عارضی شان وشوکت کے لیے اپنائے ہوئے ہیں اس کے بارے میں اسے اللہ کے حضور جوابدہ ہونا ہے کہ اس نے ان رسم ورواج کو کیوں اپنائے رکھا۔یہاں پر نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلمکا بڑا واضح ارشاد ہے کہ:’’کسی بندے کے قدم (عدالت خداوندی سے)ہٹ نہ سکیں گے جب تک کہ اس سے باز پرس نہ کرلی جائے گی‘‘۔(ترمذی)

انسان ان رسموں کو اپنا کر سوچتا ہے کہ ان کا جواب نہیں دینا پڑے گا اور کوئی اس کو نہیں دیکھ رہا۔ یہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:’’کیا وہ سمجھتا ہے کہ اس کو کسی نے نہیں دیکھا‘‘۔(البلد)

ایسی رسم ورواج کو عام کرکے معاشرے میں بری مثال پیدا کرتے ہیں اور یہ شادی ایک بوجھل تقریب بن کر رہ جاتی ہے ۔یہ رسم ورواج تو لہوو لعب ہیں جو دنیا پرستی پر ابھارنے والی، خدااور آخرت سے غافل کردینے والی ہیں ۔غرضیکہ یہ بالکل غیر سنجیدہ کام ہیں جن کی نہ اسلام اجازت دیتا ہے اور نہ یہ کام شائستہ اور مہذب لوگوں کو زیب دیتا ہے۔ اب یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ آئندہ پیش آنے والی ایسی ناخوشگوار رسموں اور کاموں کا سدباب کرکے اپنے حصہ کی شمع جلاتے جائیں شاید یہ جہاں روشن ہوجائے۔

Mudassar subhani
About the Author: Mudassar subhani Read More Articles by Mudassar subhani: 16 Articles with 12647 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.