یوم الجمعہ

یوم الجمعۃ ﴿۱﴾
طلحہ السیف
اللہ تعالیٰ معاف فرمائیں ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدردانی اور شکر گزاری میں بہت کوتاہیاں کرتے ہیں۔ نہ ہمارے دلوں میں ان نعمتوں کی عظمت کا استحضار ہے نہ ان کے شکر کی فکر، بلکہ یہ بھی معلوم نہیں کہ شکر ادا کس طرح ہو سکتا ہے۔ پورا شکر ادا کر لینا اور حق شکر بجا لانا تو بندے کی مقدرت ہی نہیں مگر شکر سے غافل رہنا بھی تو بندگی کے منافی ہے۔ سبحانک ماشکرناک حق شکرک۔

اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر کیا ہو سکے جبکہ ہم تو ان نعمتوں کی گنتی سے ہی عاجز ہیں۔ بعض نعمتیں تو ظاہر ہیں جن کا ادراک اور شعور ہمیں حاصل ہے اور بعض پوشیدہ جن کی طرف عموماً توجہ نہیں جاتی غور و فکر سے ان کا کچھ ادراک نصیب ہوجاتا ہے۔ تو جن نعمتوں کا وجود ہمارے سامنے ہے ان کے شکر کی تو بہرحال کوشش اور فکر کرنا لازم ہے جتنا ہو سکے۔ ان نعمتوں میں ایک عظیم اور بڑی نعمت ’’یوم الجمعۃ‘‘ ہے۔

جمعہ سید الایام یعنی دنوں کا سردار ہے۔ ان چھ ایام میں آخری ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے مخلوقات پیدا فرمائیں اور بونس کا دن ہے۔ جی ہاں! زیادہ مزدوری زیادہ اجرت یعنی ’’فضل‘‘ سے نوازے جانے کا دن۔ ہر اچھے ادارے میں سال کے کچھ دنوں کا انتظار کرتے ہیں۔ جب یہ دن آجاتے ہیں تو خوشی کے آثار چہروں پر واضح نمودار ہوتے ہیں، مزاج میں شفتگی، کام میں تندہی اور تیزی آجاتی ہے، اپنے کاروباری یا دفتری باس کی شکر گزاری ہونے لگتی ہے حالانکہ وہ بونس کچھ زیادہ نہیں ہوتا اور جتنا بھی ہوتا ہے فضول عیاشی یا بیوی کی زائد از ضرورت فرمائشوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ ہمارے خالق و مالک، مہربان رحمن و رحیم مولا کی بے پایاں کرم نوازی دیکھئے، ہر دن پر چھوٹی بڑی نیکی کا اجر کم از کم دس گنا، اخلاص کامل ہو اور توجہ حاصل ہو تو بے شمار گنا اور نیکی کا تعلق راہ جہاد سے ہو تو اضافہ کم از کم سات سو گنا اور مزید کی کوئی حد نہیں۔ روزانہ کی اجرت اتنی زیادہ رکھنے کے باوجود ہر ہفتے بونس کا دن، جس دن اجر اور اجرت بارش سے بھی زیادہ ، ہوائوں سے بھی بڑھ کر، سمندروں سے بھی وسیع، پہاڑوں سے بھی اونچے۔ سبحان اللہ! ۔ امام غزالی(رح) بعض کبار مشائخ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ ’’مخلوق کے لیے مقدر رزق سے زائد اللہ تعالیٰ کے کچھ فضل و انعام ایسے ہیں جو صرف ان لوگوں کو ملتے ہیں جو جمعہ کے دن کی اس ساعت میں مانگیں جس میں مانگنے والے کے لیے عطائ کا پکا وعدہ ہے‘‘۔ یعنی اس پورے دن میں عام دنوں سے زیادہ فضل و عطا تو سب کے لیے ہے ہی مگر ایک خاص وقت ایسا ہے جس میں مانگنے والے کو منہ مانگا ملتا ہے۔ کوئی اس کو پانے کے لیے ڈھونڈے تو سہی۔ اتنا بڑا دن، اتنے بڑے انعامات اور مخلوق غافل۔ ہم میں سے ہر ایک کو اعتراف تو ہے کہ ہم محتاج ہیں مگر یہ طرز عمل کتنا عجیب اور سراسر غلط ہے کہ دینے والا تو آوازیں لگائے، پکار پکار کر بلائے، بار بار اعلان کرے اور محتاج کان بھی نہ دھریں۔ ایسے وقت میں تو دوڑ کر آنا چاہیے ہاتھ ہی نہیں دامن بھی پھیلا کر آنا چاہیے، دیوانہ وار آنا چاہیے۔ ہم ایسا کرلیں تو دنیا کے پیچھے پاگلوں کی طرح پھرنے، ایک ایک در پر ہاتھ پھیلانے، حکمرانوں، افسروں اور مالداروں کی طرف نظرِ امید کرنے اور دفتروں میں جوتے گھسانے سے نجات مل جائے۔ ذرا سوچئے! فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ کی ایک دوڑ سے کتنی دوڑ دھوپ سے نجات ملتی ہے تو ہم یہ آسان سا پیکج کیوں نہیں لیتے؟ موبائل فون کمپنیوں کے اشتہارات میں پانچ سے دس پیسے کے فرق پر نظر کرکے ہم فوراً پیکج تو کیا کمپنی ہی بدل لیتے ہیں جبکہ یہاں تو معاملہ بے حدوحساب ہے۔

علما کرام فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے مخلوقات کو پیدا فرمایا، ان میں انسانوں کو کئی نوع کی فضیلت عطا فرمائی، شکل کی، عقل کی اور دیگر کئی خصوصیات کی۔ یہ کام چھ دن میں ہوا، اتوار کو شروع ہوا اور جمعہ کو ختم ہوا۔ پھر انسان کو حکم دیا کہ اس نعمت کے شکر کے لیے ایک دن مخصوص کرے۔ یہود کو حکم ہوا انہوں نے ہفتے کو اختیار کیا حالانکہ اس دن خلق ہوئی ہی نہیں تھی۔ نصاریٰ نے اتوار کو اختیار کیا جو ابتدا خلق کا دن ہے۔ امت مسلمہ کو اللہ تعالیٰ نے حق کی رہنمائی فرمائی جمعہ کا دن یوم شکر مقرر فرما دیا جو تکمیل تخلیق کا دن ہے اور شکر تکمیل پر واجب تھا تو مناسبت ہو گئی۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ہم آخری ﴿امت﴾ ہیں مگر قیامت کے دن سب سے پہلے ہوں گے اگرچہ دوسری امتوں والے ہم سے پہلے کتاب دئیے گئے، پھر یہ دن اللہ تعالیٰ نے ان پر فرض کیا تھا انہوں نے اس میں اختلاف کیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دن کی ہدایت دی، لوگ اس میں ہم سے پیچھے رہ گئے، یہود ایک دن نصاریٰ دو دن‘‘۔ ﴿بخاری﴾

مسلم شریف میں بھی یہ روایت کچھ الفاظ کے اختلاف سے موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم نازل ہونے سے پہلے ہی مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کی توفیق اور ہدایت سے جمعہ کے دن کو اجتماع اور عبادت کے لیے مقرر کر لیا تھا۔ بعد میں قرآن کی آیت نازل ہوگئی اور اس امر کی تاکید ہو گئی۔ علامہ قرطبی(رح) نے ابن سیرین(رح) کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اہل مدینہ نے ﴿نبی کریم ﷺ کی ہجرت سے قبل﴾ اجتماع کیا اور کہا کہ کوئی دن ایسا مقرر کرنا چاہیے جس میں جمع ہو کر عبادت کریں جس طرح یہود ہفتے کے دن اور نصاریٰ اتوار کے دن کرتے ہیں، سوچ بچار کے بعد انہوں نے ’’عروبۃ‘‘ کے دن کو مقرر کیا اور اسے جمعہ کا نام دے دیا ﴿یعنی اجتماع کا دن﴾۔ پھر یہ حضرات حضرت اسعد بن زرارۃ رضی اللہ عنہ کے گھر جمع ہوئے، انہوں نے دو رکعت نماز پڑھائی اور ایک بکری ذبح کرکے دوپہر اور رات کا کھانا دیا۔ یہ اسلام کا پہلا جمعہ تھا۔ نبی کریم ﷺ نے جب مکہ سے ہجرت فرمائی تو پیر سے جمعرات تک قبا میں قیام فرمایا، جمعہ کے دن آپ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں بنی سالم کے محلے میں جمعہ کا وقت داخل ہونے پر آپ ﷺ نے ان کی مسجد میں لوگوں کو جمع فرمایا۔ خطبہ دیا اور دو رکعت نماز پڑھائی۔

اللہ رب العزت نے سورۃ جمعہ کی آیت ۹ میں مسلمانوں کو اذان کے ساتھ بیع و شرائ ترک کرکے ’’سعی الی ذکر اللہ‘‘ کا تاکیدی حکم فرمایا، حضرات فقہائ کرام فرماتے ہیں کہ جمعہ کا وقت داخل ہونے کے بعد تجارت وغیرہ ممنوع ہیں اور ہر ایسے کام میں مشغول رہنا مکروہ ہے جو جمعہ کی تیاری کے علاوہ ہو۔ مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی مثال ایسے ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے یہود کو ہفتے کے دن مچھلی کے شکار سے منع فرمایا تھا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور حیلوں سے مچھلی کے شکار کا سلسلہ جاری رکھا، قوم میں کچھ لوگ انہیں اس کام سے روکتے رہے مگر وہ باز نہ آئے، اللہ تعالیٰ نے ان نافرمانوں کے چہرے مسخ فرما دئیے اور انہیں بندر اور خنزیر بنا دیا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں جمعہ کے دن اس مخصوص وقت تجارت اور لہو ترک کر کے جمعہ کی تیاری کا حکم فرمایا ہے۔ اگر اس پر عمل نہ ہوگا تو اللہ تعالیٰ کا عذاب آئے گا، شکلیں مسخ نہ بھی ہوئیں تو دل مسخ ہو جائیں گے، حق کی بجائے باطل کی طرف مائل ہوں گے، ایمان پر کفر کو ترجیح دیں گے، سنت سے بدعت اچھی لگے گی، نصیحت سے اعراض معمول بنے گا اور گناہوں سے رغبت غالب ہوگی، سستی اور غفلت چھا جائے گی اور برائیوں کی طرف میلان اچھائیوں سے زیادہ ہوگا۔ مسخ کی یہ شکل شکلوں کے مسخ ہونے سے بھی زیادہ بری ہے اگر اسکا احساس نصیب ہو جائے۔ اعاذنااللہ من ذالک۔
جمعہ کے دن کے فضائل، جمعہ کی نماز کے فضائل، جمعہ کے دن کے غسل کے فضائل، جمعہ کی ایک گھڑی کی فضیلت، جمعہ کی طرف جلدی جانے کے فضائل تمام کتب احادیث میں مذکور ہیں، چند احادیث یہاں ذکر کی جاتی ہیں تاکہ ہم سب ذوق و شوق سے ان پر عمل کریں۔

۱۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے اچھی طرح وضو کیا پھر جمعہ کی نماز پڑھنے آیا ، امام کی بات ﴿خطبہ﴾ غور سے سنی اور خاموش رہا اس کے اس جمعہ اور پچھلے جمعہ کے درمیان کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اور تین دن کے مزید ۔ ﴿الترغیب و الترہیب حدیث ۵۲۰۱﴾

۲۔ حضرت ابو ایوب انصاری(رح) روایت کرتے ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے جمعہ کے دن غسل کیا، خوشبو لگائی اگر اسکے پاس موجود تھی اور اچھے کپڑے پہنے پھر گھر سے نکل کر مسجد میں آیا، جس قدر توفیق ہوئی نماز پڑھی، کسی کو تکلیف نہ دی اور خاموش رہا یہاں تک کہ نماز ادا کرکے لوٹ گیا اس کا یہ عمل ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ ﴿الترغیب و الترہیب حدیث ۰۳۰۱﴾

۳۔ حضرت ابو بکر صدیق(رض) سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اس کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں، پھر جب وہ مسجد کی طرف چلتا ہے تو ہر قدم پر بیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں، جب نماز پڑھ کر واپس لوٹتا ہے تو دو سو سال کے نیک اعمال کا بدلہ دیا جاتا ہے۔ ﴿الترغیب و الترہیب حدیث ۴۳۰۱﴾

۴۔ حضرت اوس بن اوس الثقفی(رض) روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور گھر والوں کو غسل کرایا، مسجد کی طرف جلدی نکلا اور گھر والوں کو جلدی نکالا، پیدل چل کر گیا سوار نہ ہو، امام کے قریب بیٹھا، غور سے خطبہ سنا اور کوئی فضول کام نہ کیا اس کے لیے ہر قدم کے بدلے ایک سال کی نمازوں اور روزوں کا اجر ہے۔ ﴿الترغیب و الترہیب حدیث ۵۳۰۱﴾

۵۔ حضرت ابو لبابہ (رض)روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جمعہ کا دن دنوں کا سردار اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے عظمت والا دن ہے حتیٰ کہ یوم الفطر اور یوم الاضحی سے بھی، اس میں پانچ خصوصیات ہیں ﴿۱﴾ اللہ تعالیٰ نے اس میں آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا ﴿۲﴾ اللہ تعالیٰ نے اسی دن آدم علیہ السلام کو زمین پر بھیجا ﴿۳﴾ اسی دن آدم علیہ السلام کی وفات ہوئی ﴿۴﴾ اس میں ایک ساعت ہے جس میں اللہ تعالیٰ سے بندہ جو مانگے اسے عطا کیا جاتا ہے بشرطیکہ حرام کا سوال نہ کرے ﴿۵﴾ اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ تمام فرشتے، زمین، آسمان، ہوائیں، پہاڑ، سمندر سب جمعہ کے دن سے ڈرتے ہیں۔ ﴿الترغیب و الترہیب حدیث ۸۳۰۱﴾

۶۔ حضرت ابو ہریرہ (رض) سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے جمعہ کے دن غسل کیا پھر پہلی گھڑی میں مسجد کی طرف گیا وہ ایک اونٹ صدقہ کرنے والے کی طرح ہے۔ جو دوسری ساعت میں گیا وہ ایک گائے صدقہ کرنے والے کی طرح ہے جو تیسری ساعت میں گیا گویا اس نے سینگوں والا مینڈھا صدقہ کیا، چوتھی ساعت میں جانے والا مرغی صدقہ کرنے کا اجر پائے گا اور جو پانچویں ساعت میں گیا اس نے گویا انڈہ صدقہ کیا۔ پھر جب امام ﴿خطبہ کے لیے﴾ نکل آئے ملائکۃ خطبہ سننے حاضر ہوتے ہیں۔ ﴿الترغیب و الترہیب حدیث ۹۵۰۱﴾

یعنی اس وقت آنے والوں کا نام نہیں لکھتے جب کہ اسی باب کی دوسری روایات میں صراحت ہے کہ فرشتے اپنے رجسٹر بند کردیتے ہیں اور خطبہ سننے لگتے ہیں۔

﴿باقی آئندہ﴾
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 197405 views A Simple Person, Nothing Special.. View More