اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سلامتی کونسل سے فلسطین کو رکن تسلیم کرنے کا مطالبہ

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے تنظیم کے اندر فلسطین کے حقوق میں اضافہ کرتے ہوئے اس کی رکنیت کا مطالبہ کیا ہے۔ واضح رہے کہفلسطین کو 2012 سے غیر رکن مبصر ریاست کا درجہ تو حاصل ہے مگر مکمل رکنیت جیسے حقوق میسر نہیں ہیں۔
فلسطین
Reuters

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے تنظیم کے اندر فلسطین کے حقوق میں اضافہ کرتے ہوئے اس کی رکنیت کا مطالبہ کیا ہے۔

فلسطین کو 2012 سے غیر رکن مبصر ریاست کا درجہ تو حاصل ہے مگر مکمل رکنیت جیسے حقوق میسر نہیں ہیں۔

رکنیت کا فیصلہ صرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ہی کر سکتی ہے۔

امریکہ فلسطین کی سلامتی کونسل میں مکمل رکنیت کے لیے کی جانے والی کوشش کو ویٹو کر دے گا لیکن جمعے کو ہونے والی ووٹنگ میں وہ فلسطینیوں کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے۔

تاظیم کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب متعدد یورپی ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں یا اس بارے میں سوچ رہی ہیں۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے جمعرات کو ہسپانوی نشریاتی ادارے آر ٹی وی ای کو بتایا کہ سپین 21 مئی کو ایسا کرے گا۔ اس سے قبل انھوں نے تاریخ کی تصدیق کیے بغیر کہا تھا کہ آئرلینڈ، سلووینیا اور مالٹا بھی یہ قدم اٹھائیں گے۔

جمعے کے روز اقوام متحدہ کی قرارداد میں فلسطین کو عالمی ادارے میں اضافی حقوق دیے گئے ہیں، جس کے تحت وہ مباحثوں میں مکمل طور پر حصہ لے سکتا ہے، ایجنڈا آئٹمز تجویز کر سکتا ہے اور کمیٹیوں میں اپنے نمائندوں کو منتخب کر سکتا ہے۔

تاہم اسے اب بھی ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہیں ہوگا، جسے جنرل اسمبلی کے پاس دینے کا اختیار نہیں ہے اور اسے سلامتی کونسل کی حمایت حاصل ہوگی۔

فلسطینی ریاست کے مسئلے نے کئی دہائیوں سے بین الاقوامی برادری کو پریشان کر رکھا ہے۔

1988 میں فلسطینیوں کی مرکزی نمائندہ تنظیم فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) نے سب سے پہلے فلسطینی ریاست کے قیام کا اعلان کیا تھا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق فلسطینی ریاست کو اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 139 نے تسلیم کیا ہے۔

عملی طور پر فلسطینیوں نے اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں میں فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کے ذریعے خود مختاری کو محدود کر رکھا ہے۔ پی اے نے 2007 میں غزہ کی پٹی کا کنٹرول حماس کے ہاتھوں کھو دیا تھا۔ اقوام متحدہ دونوں علاقوں کو اسرائیل کے زیر قبضہ اور ایک سیاسی اکائی پر مشتمل سمجھتی ہے۔

اسرائیل فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کرتا اور موجودہ اسرائیلی حکومت مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ایسی ریاست اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ ہو گی۔

امریکہ اسرائیل کے ساتھ مل کر ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتا ہے جو اسرائیل فلسطین تنازع کا نام نہاد دو ریاستی حل ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ ایسی ریاست صرف فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات کے ذریعے ہی ہونی چاہیے۔

گزشتہ ماہ امریکہ نے سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں سے ایک کی حیثیت سے ویٹو کا استعمال کرتے ہوئے الجزائر کی اس قرارداد کو روک دیا تھا جس میں فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

سلامتی کونسل کی قراردادیں قانونی طور پر پابند ہیں جبکہ جنرل اسمبلی کی قراردادوں کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔

فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان مرکزی تنازع کیا ہے؟

ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام میں تاخیر کے علاوہ اسرائیل کی جانب سے غرب اردن میں یہودی بستیوں کی تعمیر اور ان کے گرد سکیورٹی رکاوٹوں کی تعمیر نے امن کے حصول کو مشکل بنا دیا ہے۔ تاہم ان کے علاوہ بھی کئی اختلافات موجود ہیں۔

اسرائیل یروشلم پر مکمل دعوی کرتا ہے اور اس کا دعوی ہے کہ یہ اس کا دارالحکومت ہے۔ تاہم اس دعوے کو بین الاقوامی حمایت حاصل نہیں ہے۔ فلسطینی مشرقی یروشلم کو اپنا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔

فلسطینیوں کا مطالبہ ہے کہ ان کی مستقبل کی ریاست کے سرحدیں 1967 کی جنگ سے قبل کی حالت پر طے ہونی چاہیے تاہم اسرائیل اس مطالبے کو تسلیم نہیں کرتا۔

اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے بعد جن علاقوں پر قبضہ کیا، وہاں غیر قانونی بستیاں تعمیر کی گئی ہیں اور اب غرب اردن اور مشرقی یروشلم میں پانچ لاکھ کے قریب یہودی بستے ہیں۔

ایک اور معاملہ فلسطینی تارکین وطن کا بھی ہے۔ پی ایل او کا دعوی ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں ایک کروڑ سے زیادہ فلسطینی موجود ہیں جن میں سے نصف اقوام متحدہ کے ساتھ رجسٹر ہیں۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ ان افراد کو اسرائیل واپس آنے کا حق حاصل ہے جبکہ اسرائیل کا ماننا ہے کہ ایسا کرنے سے اس کی یہودی شناخت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ایسے میں امن کیسے قائم ہو گا؟ اس کے لیے دونوں جانب سے چند اقدامات ضروری ہوں گے۔ اسرائہل کو فلسطیونیوں کی آزاد ریاست کا حق تسلیم کرنا ہو گا، غزہ کی پٹی کے محاصرہ ختم کرنا ہو گا اور مشرقی یروشلم اور غرب اردن میں رکاوٹیں ختم کرنی ہوں گی۔

دوسری جانب فلسطینی گروہوں کو تشدد ترک کرنا ہو گا اور اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کرنا ہو گا۔ ساتھ ہی سرحدوں، یہیودی بستیوں اور تارکین وطن کی واپسی کے معاملے پر بھی سمجھوتہ ضروری ہے۔

حماس کیا ہے؟

حماس غزہ کی پٹی پر برسراقتدار فلسطینی عسکریت پسند گروہ ہے جو 2007 میں اقتدار سنبھالنے سے اب تک اسرائیل کے ساتھ متعدد جنگیں لڑ چکا ہے۔

ان جنگوں کے علاوہ حماس نے اسرائیل پر ہزاروں راکٹ داغے ہیں اور کئی حملے کیے ہیں۔ اسرائیل نے بھی حماس کو کئی بار فضائی حملوں سے نشانہ بنایا ہے۔ 2007 سے اسرائیل نے مصر کی مدد سے غزہ کی پٹی کا محاصرہ کر رکھا ہے۔

اسرائیل، امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین سمیت کئی عالمی طاقتیں حماس یا اس کے عسکری ونگ کو دہشت گرد قرار دے چکی ہیں۔

حماس کو ایران کی حمایت حاصل ہے جس سے یہ گروہ پیسہ، ہتھیار اور ٹریننگ حاصل کرتا ہے۔

حماس اور اسرائیل کیوں لڑ رہے ہیں؟

حماس اور اسرائیل کے درمیان مستقل تناؤ موجود رہتا پے۔ تاہم سنیچر کو حماس کی جانب سے ہونے والے حملے بلکل اچانک ہوئے جس میں حماس نے پہلے درجنوں راکٹ داغے جس کے بعد اس کے جنگجو سرحد پار کرنے کے بعد اسرائیلی آبادیوں پر حملہ آور ہوئے۔

یہ زمینی حملے زیادہ تر جنوبی اسرائیل میں ہوئے جن کی سوشل میڈیا پر نظر آنے والی ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ متعدد افراد موٹر سائیکلوں پر، پیدل یا گاڑیوں پر سرحد پر موجود رکاوٹیں عبور کرنے کے بعد اسرائیل میں داخل ہوئے۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق حماس کے جنگجوؤں کے اسرائیل میں داخل ہونے کے بعد ملک کے جنوبی علاقوں میں ان کی اسرائیلی فوجیوں سے مسلح جھڑپیں ہوئیں۔

بی بی سی کے نامہ نگار جیرمی بیکر کے مطابق فلسطینی عسکریت پسندوں نے متعدد فوجی چوکیوں پر حملہ کیا۔

خود کو عسکریت پسند گروہ القدس بریگیڈ کا ترجمان ظاہر کرنے والے ابو حمزہ کی جانب سے ٹیلی گرام پر جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اُن کے جنگجوؤں نے ’متعدد‘ اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنا لیا ہے۔‘

حماس کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس 53 ’جنگی قیدی‘ ہیں جن میں اسرائیلی فوج کے سینیئر افسر بھی شامل ہیں اور ان میں سے بہت سوں کو ان سرنگوں میں رکھا گیا ہے جنھیں ماضی میں اسرائیل نشانہ بناتا رہا ہے

اس کارروائی کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر فوری فضائی حملے شروع کیے جہاں مقامی حکام کے مطابق اب تک سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

فوجی حکام کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں حماس کے 17 عسکری کمپاؤنڈز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

اسرائیلی طیاروں نے غزہ شہر کے مرکز میں واقع ایک 11 منزلہ عمارت کو بھی بمباری کر کے تباہ کر دیا ہے۔ اس عمارت میں حماس کے ریڈیو سٹیشن قائم تھے۔ حماس کا کہنا ہے کہ اس حملے کے بعد اس نے اسرائیلی علاقے پر مزید 150 راکٹ داغے ہیں۔

اس سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے ایک ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم حالتِ جنگ میں ہیں‘ اسرائیل کے وزیر دفاع یواو گیلنٹ نے کہا ہے کہ حماس نے ’ایک سنگین غلطی‘ کی ہے اور یہ کہ ’اسرائیل کی ریاست یہ جنگ جیت جائے گی۔‘

اسی بارے میں


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.