نیکا شاکرمی: خفیہ رپورٹ جس نے سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 16 سالہ ایرانی لڑکی کی جنسی ہراسانی اور ہلاکت کا راز فاش کیا

ایران سے لیک ہونے والی ایک سرکاری رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے تین اہلکاروں نے کیسے ایک نوجوان ایرانی خاتون کو جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا اور پھر اُن کو ہلاک کیا۔ اس رپورٹ کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ ایرانی سکیورٹی فورسز نے تحریر کی ہے۔

ایران سے لیک ہونے والی ایک سرکاری رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ ایک نوجوان ایرانی خاتون کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تین اہلکاروں نے جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا اور اُن کو ہلاک کیا۔ اس رپورٹ کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ ایرانی سکیورٹی فورسز نے تحریر کی ہے۔

اس رپورٹ کی مدد سے بی بی سی کو یہ جاننے میں مدد ملی کہ 16 سالہ نیکا شاکرمی، جو 2022 میں ایک حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے کے دوران غائب ہو گئی تھیں، کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ غائب ہونے کے نو دن بعد نیکا کی لاش ملی تھی۔ بعدازاں ایرانی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ نیکا نے خودکشی کر لی تھی۔

اس تحریر میں سامنے آنے والے الزامات ایرانی حکومت اور پاسداران انقلاب کے سامنے رکھے گئے تاہم اُن کی جانب سے فی الحال کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

اس رپورٹ کو، جسے انتہائی خفیہ قرار دیا گیا ہے، میں ایرانی اسٹیبلمشنٹ کی حفاظت پر معمور پاسدارانِ انقلاب کی جانب سے نیکا کے مقدمہ پر ہونے والی ایک سماعت کا حال مختصراً بیان کیا گیا ہے جس میں مبینہ قاتلوں اور اُن سینیئر کمانڈرز کے نام بھی درج ہیں جنھوں نے سچ چھپانے کی کوشش کی۔

اس رپورٹ میں اُس واقعے کی پریشان کُن تفصیلات موجود ہیں جب نیکا کو سکیورٹی فورسز نے ایک خفیہ وین میں حراست میں لے رکھا تھا۔ ان تفصیلات کے مطابق:

  • ایک اہلکار نے، جو نیکا کے اوپر بیٹھا ہوا تھا، ان کو جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا
  • ہتھکڑی پہنائے جانے کے باوجود نیکا نے مزاحمت کی اور اہلکار کو گالیاں دیں
  • یہ اعتراف کیا گیا کہ اسی وجہ سے اہلکاروں نے نیکا کو لاٹھیوں سے پیٹا

بہت سی جعلی ایرانی دستاویزات کی آن لائن موجودگی کی وجہ سے بی بی سی نے کئی ماہ تک متعدد ذرائع سے اس رپورٹ میں درج تفصیلات کی تصدیق کی ہے۔

اس تفصیلی تحقیق کی مدد سے بی بی سی کو علم ہوا کہ دستاویزات میں واقعی نیکا کی زندگی کے آخری لمحات کی کہانی موجود ہے۔

نیکا شاکرمی کی گمشدگی اور موت کو وسیع پیمانے پر خبروں میں جگہ ملی تھی اور اُن کی تصویر ایران میں خواتین کی جانب سے اپنے حقوق کی آزادی کی لڑائی کی علامت بن گئی تھی۔ سنہ 2022 میں حجاب کے قانون کے خلاف ایران میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران ان کا نام بار بار پکارا گیا۔

’زن، زندگی، آزادی‘ کی تحریک 22 سالہ مہسا امینی کی موت سے شروع ہوئی تھی جو اقوام متحدہ کے ایک مشن کے مطابق درست طریقے سے حجاب نہ پہنے جانے پر گرفتاری کے بعد پولیس کی حراست میں ہوئی۔

نیکا کی لاش ایک مردہ خانے سے ان کی گمشدگی کے نو دن بعد ملی تھی۔ ایرانی حکام نے کہا تھا کہ اُن کی موت کا مظاہروں سے کوئی تعلق نہیں اور ایک تفتیش کے بعد ان کی موت کی وجہ خودکشی کو قرار دیا گیا تھا۔

گمشدگی سے قبل نیکا کو 20 ستمبر کے دن مرکزی تہران کے ایک پارک میں حجاب کو نذر آتش کرتے ہوئے فلمایا گیا تھا۔ ان کے گرد موجود افراد ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ علی خامنہ ای کے پوسٹر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ’آمر کی موت‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ اس وقت شاید نیکا کو علم نہیں تھا کہ ان کی نگرانی ہو رہی تھی۔ یہ بات خفیہ رپورٹ سے واضح ہوتی ہے۔

ایرانی پاسداران انقلاب کے نام تحریر اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس میں موجود تفصیلات اس مظاہرے کی نگرانی کرنے والی پولیس ٹیموں میں موجود افراد سے تفصیلی بات چیت کے بعد مرتب کی گئی ہیں۔

خفیہ تحریر میں بتایا گیا کہ مظاہرے کو متعدد خفیہ اہلکار دیکھ رہے تھے اور ان میں سے ایک ٹیم، جسے 12 کا نمبر دیا گیا ہے، کو شک تھا کہ نیکا ہی اس کی سربرای کر رہی ہیں کیوں کہ ’ان کا رویہ غیر روایتی تھا اور وہ فون کا بار بار استعمال کر رہی تھیں۔‘

اس خفیہ ٹیم نے اپنا ایک اہلکار احتجاج کے اندر بھیجا تاکہ اس بات کی تصدیق کی جا سکے کہ نیکا واقعی احتجاج کی سرکردہ رہنما ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس اہلکار نے اپنی ٹیم کو نیکا کی گرفتاری کے لیے طلب کیا لیکن وہ فرار ہو گئیں۔

نیکا کی ایک رشتہ دار نے ماضی میں بی بی سی فارسی کو بتایا تھا کہ اُس رات نیکا نے ایک دوست کو فون پر بتایا کہ سکیورٹی اہلکار اُن کا پیچھا کر رہے ہیں۔

ایران
BBC
نیکا اپنی والدہ نسرین کے ساتھ

خفیہ رپورٹ کے مطابق تقریبا ایک گھنٹے بعد نیکا کو تلاش کر لیا گیا اور ان کو حراست میں لے کر ایک خفیہ گاڑی میں بیٹھایا گیا جو ایک فریزر وین تھی۔ وین کے پچھلے حصے میں تین اہلکار موجود تھے جن میں آرش کلھر، صادق منجزی اور بھروز صادقی شامل تھے۔ ٹیم کے سربراہ مرتضی جلیل ڈرائیور کے ساتھ وین کے اگلے حصے میں بیٹھے ہوئے تھے۔

رپورٹ کے مطابق ٹیم نے کسی مقام کا تعین کرنے کی کوشش کی جہاں نیکا کو لے جایا جا سکے۔ پہلے انھوں نے ایک عارضی پولیس چوکی کو چُنا لیکن وہاں پر رش کی وجہ سے ان کو وہاں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس کے بعد ٹیم نے ایک حراستی مرکز کا رُخ کیا جو 35 منٹ کی مسافت پر موجود تھا۔ اس مرکز کے کمانڈر نے پہلے حامی بھرنے کے بعد اپنا ذہن بدل لیا۔

اس مرکز کے کمانڈر کی جانب سے دیے جانے والے بیان کے مطابق، جو رپورٹ میں درج ہے، اس نے بتایا کہ ’ملزمہ مسلسل گالیاں دے رہی تھی اور نعرے لگا رہی تھی۔ اس وقت مرکز میں 14 دیگر خواتین زیر حراست تھیں اور میرا خیال تھا کہ ملزمہ ان کو بھی بھڑکا سکتی تھی اور ہنگامہ ہو سکتا تھا۔‘

ایران
BBC
خفیہ رپورٹ کے مطابق نیکا کو حراست میں لے کر ایک خفیہ گاڑی میں چڑھایا گیا جو ایک فریزر وین تھی جس کے پچھلے حصے میں تین اہلکار موجود تھے (وین کا فرضی خاکہ)

یہ صورتحال دیکھ کر مرتضی جلیل نے پاسداران انقلاب کے ہیڈ کوارٹر فون کیا اور مشورہ مانگا کہ اب کیا کیا جائے تو انھیں تہران کی بدنام زمانہ جیل ’ایون‘ جانے کو کہا گیا۔ راستے میں، مرتضی کے مطابق، ان کو وین کے پچھلے تاریک حصے سے آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ مرتضی کو کیا سُنائی دے رہا تھا، وہ ہم رپورٹ میں وین کے پچھلے حصے میں موجود اہلکاروں کی جانب سے دیے جانے والے بیانات کی مدد سے جانتے ہیں۔

وین کے پچھلے حصے میں موجود اہلکار بھروز صادقی کے مطابق حراستی مرکز کی جانب سے نیکا کو لینے سے انکار کے بعد جب اسے وین میں واپس لایا گیا تو اس نے چیخنا چلانا شروع کر دیا۔ بھروز نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ ’آرش نے اپنی جراب سے اس کا منھ بند کیا، لیکن اس نے مزاحمت کی تو صادق نے اسے فریزر پر لٹایا اور اس کے اوپر بیٹھ گیا جس سے حالات قابو میں آ گئے۔‘

بھروز نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ ’میں نہیں جانتا کہ کیا ہوا لیکن چند منٹ بعد ملزمہ نے دوبارہ گالیاں دینا شروع کر دیں۔ میں تاریکی میں کچھ دیکھ نہیں سکتا تھا، مجھے صرف لڑنے اور پٹخنے کی آواز آئی۔‘

لیکن آرش نے مزید تفصیلات دیں، جن کے مطابق انھوں نے اپنے فون کی ٹارچ چلائی تو دیکھا کہ صادق نے ’اپنا ہاتھ نیکا کی شلوار میں گھسایا۔‘ ان کے مطابق اس کے بعد اچانک صورتحال بے قابو ہو گئی۔

ان کے مطابق ان کو آواز سے احساس ہوا کہ ملزمہ کو چھڑی سے پیٹا جا رہا ہے اور ’میں نے بھی مکے چلانا شروع کیے لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ میں ملزمہ کو مار رہا ہوں یا اپنے ساتھیوں کو۔‘

تاہم صادق نے آرش کے بیان کی تردید کی ہے جس کی وجہ ان کے مطابق پیشہ ورانہ ’حسد‘ ہے۔ صادق کے مطابق انھوں نے نیکا کی شلوار میں ہاتھ نہیں گُھسایا۔ تاہم انھوں نے اعتراف کیا کہ ملزمہ کے اوپر بیٹھے ہوئے اُن کی فطری جبلت بیدار ہوئی اور انھوں نے ملزمہ کے جسم کو چُھوا۔

صادق کے مطابق اس حرکت نے ملزمہ کو غصہ دلایا اور اس نے ہاتھ بندھے ہونے کے باوجود ایک جھٹکا دیا جس سے وہ نیچے گر گئے۔ ’اس نے میرے چہرے پر لات ماری، مجھے اپنا دفاع کرنا تھا۔‘

ایران
BBC
رپورٹ میں موجود اہلکار کا بیان

اس پر وین کے اگلے حصے میں بیٹھے ہوئے مرتضی نے ڈرائیور کو گاڑی روکنے کا حکم دیا جس کے بعد گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولنے پر نیکا کا بے جان جسم دریافت ہوا۔ مرتضی کے مطابق ملزمہ کا چہرہ اور سر خون میں لت پت تھا جسے صاف کیا گیا۔

نیکا کی والدہ کے بیان کے مطابق انھوں نے نیکا کو اسی حالت میں مردہ خانے میں پایا۔ اکتوبر 2022 میں بی بی سی فارسی نے نیکا کی موت کا سرٹییفیکیٹ حاصل کیا جس کے مطابق ان کی ہلاکت کسی ’ٹھوس آلے سے لگنے والی متعدد چوٹوں سے ہوئی۔‘

ٹیم کے سربراہ مرتضیٰ نے اعتراف کیا کہ انھوں نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ دراصل ہوا کیا ہے۔

’میں صرف یہ سوچ رہا تھا کہ اسے کہاں لے جایا جائے اور میں نے کسی سے کوئی سوال نہیں کیا۔ میں نے صرف یہ پوچھا کہ کیا یہ سانس لے رہی ہے؟ میرا خیال ہے کہ بھروز نے جواب دیا کہ نہیں، وہ مر چکی ہے۔‘ مرتضی نے پاسداران انقلاب کے ہیڈ کوارٹر تیسری بار فون کیا۔ اس بار مرتضی نے ایک سینیئر افسر سے بات کی جن کے لیے رپورٹ میں نعیم 16 کا کوڈ استعمال کیا گیا ہے۔

نعیم 16 نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ ’ہمارے سٹیشنوں پر اموات پہلے ہو چکی تھیں اور میں نہیں چاہتا تھا کہ یہ تعداد 20 تک جا پہنچے۔ ملزمہ کی لاش کو مرکز لانے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہونا تھا۔‘

نعیم 16 نے مرتضی سے کہا کہ وہ ملزمہ کی لاش ’کہیں پھینک دیں۔‘ مرتضی کے مطابق انھوں نے تہران کی یادگار امام شاہراہ کے نیچے ایک تاریک اور خالی گلی میں پھینک دی۔ رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ایک جنسی حملے نے وین کے پچھلے حصے میں لڑائی کو جنم دیا اور ٹیم 12 کی جانب سے لگائی گئی چوٹوں سے نیکا کی موت واقع ہوئی۔

اس دوران رپورٹ کے مطابق ’تین لاٹھیاں اور تین ٹیزر استعمال ہوئے۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ کس چوٹ سے ہلاکت ہوئی۔‘ یہ رپورٹ ایرانی حکومت کے اس موقف کی تردید کرتی ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ نیکا نے خودکشی کی۔ نیکا کی تدفین کے ایک ماہ بعد سرکاری ٹی وی پر حکومتی تحقیقات کے نتائج کا اعلان کیا گیا کہ نیکا نے ایک عمارت سے چھلانگ لگا کر خودکشی کی۔

اس ٹی وی رپورٹ میں ایک سی سی ٹی وی فوٹیج دکھائی گئی جس میں ایک فرد اپارٹمنٹ بلڈنگ میں داخل ہوتا دکھائی دیا لیکن نیکا کی والدہ نے بی بی سی فارسی کو دیے جانے والے ٹیلی فون انٹرویو میں کہا کہ وہ یہ تصدیق ’ہرگز نہیں کر سکتیں کہ یہ فرد نیکا ہی ہے۔‘

ایران
BBC

نسرین شاکرمی نے بعد میں ایک بی بی سی ڈاکومینٹری کے دوران مظاہرین کی اموات پر حکام کے دعوؤں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم سب جانتے ہیں کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔‘

بی بی سی آئی انوسٹیگیشن صرف اس رپورٹ کے مواد کی تصدیق سے تک محدود نہیں رہا بلکہ ایک سوال یہ بھی درپیش تھا کہ آیا اس رپورٹ پر اعتماد کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔

اکثر اوقات انٹرنیٹ پر گردش کرنے والی مبینہ سرکاری ایرانی دستاویزات جھوٹی نکلتی ہیں۔ تاہم ایسی دستاویزات کی حقیقت کا تعین کرنا مشکل نہیں ہوتا کیوں کہ یہ غلطیوں سے بھرپور ہوتی ہیں اور ان میں گرائمر یا الفاظ کی غلطیوں سمیت فارمیٹ کی غلطیاں بھی شامل ہوتی ہیں۔ چند نشانیوں میں سے ایک حکومتی محکمے یا ایجنسی کا غلط نشان بھی شامل ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ سرکاری زبان کے استعمال کو جانچنا بھی ایک ایسا طریقہ ہے جس سے سرکاری دستاویزات کی حقیقت کو پرکھا جا سکتا ہے۔

جس رپورٹ پر ہم نے تحقیق کی اس میں بھی چند ایسی چیزیں شامل تھیں۔ مثال کے طور پر ناجا پولیس فورس کو ’فراجہ‘ لکھا گیا تھا۔ اسی لیے اس کی تصدیق کے لیے ہم نے ایک سابقہ ایرانی انٹیلیجنس افسر سے رابطہ کیا جو سینکڑوں مصدقہ دستاویزات دیکھ چکے ہیں جنھوں نے پاسداران انقلاب کے آرکائیو کے ذریعے رپورٹ کے نمبر کی تصدیق کہ اور ان کو علم ہوا کہ یہ رپورٹ 2022 میں حکومت مخالف تحریک پر مرتب ہونے والی ایک جامع فائل کا حصہ ہے جو 322 صفحات پر مشتمل ہے۔

ان کی مدد سے ہمیں یہ اعتماد حاصل ہوا کہ یہ رپورٹ مصدقہ اور اصلی ہے۔ اسی سابقہ افسر کی مدد سے ہم نعیم 16 کی شناخت کرنے میں بھی کامیاب رہے جنھوں نے نیکا کی لاش کو پھینکنے کا حکم دیا تھا۔

سابقہ انٹیلیجنس افسر نے یہ کام ایران کی عسکری اسٹیبلشمنٹ میں کسی کو فون کر کے کیا جس کی مدد سے ان کو علم ہوا کہ نعیم 16 دراصل کیپٹن محمد زمانی کا خفیہ کوڈ ہے جو پاسداران انقلاب میں ہی کام کرتے ہیں۔ کیپٹن محمد زمانی کا نام ان افراد میں شامل ہے جو رپورٹ کے مطابق نیکا کی موت پر ہونے والی پانچ گھنٹے کی تفتیشی سماعت کے دوران موجود تھے۔

ان الزامات کو ایرانی حکومت اور پاسداران انقلاب کے سامنے پیش کیا گیا جنھوں نے بی بی سی کو کوئی جواب نہیں دیا۔ ہم اب تک یہ جانتے ہیں کہ نیکا کی ہلاکت کے ذمہ دار اہلکاروں کو سزا نہیں دی گئی۔ اس کی وجہ جاننے کے لیے رپورٹ میں سے ہی پتہ چلتا ہے ٹیم 12 کے تمام اراکین کا تعلق حزب اللہ گروپ سے ہے۔

ایرانی نیم عسکری گروپ حزب اللہ، جس کا لبنان کی حزب اللہ سے کوئی تعلق نہیں، کے اراکین اکثر پاسداران انقلاب کے تنظیمی ڈھانچے سے باہر رہ کر بھی کام کرتے ہیں جس کا اعتراف رپورٹ میں کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ’چونکہ یہ افراد حزب اللہ فورسز سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے اس مقدمے میں ضروری وعدوں اور سکیورٹی گارنٹی کے علاوہ کچھ کرنا ممکن نہیں۔‘

واضح رہے کہ ایران میں خواتین کے حقوق کے مظاہروں کے دوران سکیورٹی فورسز نے 551 مظاہرین کو ہلاک کیا جن میں سے اکثریت، اقوام متحدہ کے مطابق، گولیوں سے ہلاک ہوئے۔

سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کی وجہ سے چند ماہ کے اندر مظاہروں کی شدت میں کمی آ گئی جس کے بعد ایران کی اخلاقی پولیس کی کارروائیوں میں بھی کمی آئی لیکن رواں ماہ کے آغاز میں ایرانی اخلاقی پولیس نے ایک بار پھر لباس کی پابندیوں پر کارروائیاں شروع کی ہیں۔

ان پابندیوں کے دوران حراست میں لیے جانے والے افراد میں نیکا کی بڑی بہن آیدا بھی شامل ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.