عمران خان کی سپریم کورٹ میں پیشی: تین گھنٹے سماعت میں ایک لفظ بولنے کی نوبت نہ آئی

عمران خان جب ویڈیو لنک پر نمودار ہوئے تو کمرہ عدالت میں موجود تحریک انصاف کارکنان، بالخصوص خواتین، کے جذبات دیدنی تھے۔ چند خواتین کی آنکھوں میں آنسو بھی نظر آئے جنھیں وہ چھپانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ تحریک انصاف کارکنان ٹی وی سکرین کی جانب ایسے ہاتھ ہلا رہے تھے جیسے انھیں یقین ہو کہ عمران خان انھیں دیکھ رہے ہیں۔

جمعرات کے دن یعنی 16 مئی کو سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر ایک میں مجھ سمیت درجنوں افراد نے اسیر سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کو تقریبا 9 ماہ گیارہ دن بعد دیکھا اور وہ بھی اڈیالہ جیل سے لائیو یعنی ویڈیو لنک پر۔

یہ ایسا موقع تھا جسے دیکھنے کے اتنے طلبگار تھے کہ کمرہ عدالت نمبر ایک، جو چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسی کی عدالت ہے، میں ایسا مجمع لگا کہ بہت سے لوگوں کو کورٹ روم نمبر سات اور آٹھ میں بٹھانا پڑا جہاں ویڈیو کی سہولت تک میسر نہ تھی۔ تاہم ان عدالتی کمروں میں بیٹھے لوگ عدالتی کارروائی سن ضرور سکتے تھے۔

واضح رہے کہ عمران خان کو توشہ خانہ مقدمے میں عدالتی فیصلے کے بعد 5 اگست 2023 کو لاہور سے گرفتار کرکے پہلے اٹک جیل اور بعد میں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا تھا۔ چند دن قبل سپریم کورٹ نے نیب ترامیم سے متعلق عدالتی فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں کی سماعت میںسابق وزیر اعظم عمران خان کو ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونے کا حکم دیا تو اڈیالہ جیل کے حکام کو اس ضمن میں ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

پاکستان تحریک انصاف کو یہ یقین تھا کہ جس طرح انٹراکورٹ اپیلوں کی چند روز پہلے ہونے والی سماعت کی لائیو سٹریمنگ کی گئی تھی اسی طرح جمعرات کو بھی وہی عمل دھرایا جائے گا۔ اسی امید پر شاید تحریک انصاف کو ایسا لگ رہا تھا کہ جمعرات کو عدالت میں ویڈیو حاضری کے دوران عمران خان بات تو ججوں سے کر رہے ہوں گے لیکن اسی دوران قوم سے جیسے خطاب بھی ہو جائے گا۔

لیکن ان امیدوں پر اس وقت پانی پھر گیا جب یہ بتایا گیا کہ عدالتی کارروائی کی لائیو سٹریمنگ نہیں ہو رہی۔

تاہم عمران خان جب ویڈیو لنک پر نمودار ہوئے تو کمرہ عدالت میں موجود تحریک انصاف کارکنان، بالخصوص خواتین، کے جذبات دیدنی تھے۔ چند خواتین کی آنکھوں میں آنسو بھی نظر آئے جنھیں وہ چھپانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ تحریک انصاف کارکنان ٹی وی سکرین کی جانب ایسے ہاتھ ہلا رہے تھے جیسے انھیں یقین ہو کہ عمران خان انھیں دیکھ رہے ہیں۔

لیکن ایسا بالکل نہیں تھا کیونکہ جیل کے اندر واقع ای کورٹ میں جو کمیرہ لگایا گیا تھا وہ صرف ان پانچ ججوںپر ہی فوکس تھا جو ان اپیلوں کی سماعت کر رہے تھے یعنی عمران خان صرف اور صرف عدالت میں بیٹھے ججوں کو ہی دیکھ سکتے تھے۔

سکائی بلیو رنگ کی ٹی شرٹ اور کالے رنگ کی پتلون پہنے سابق وزیر اعظم عمران خان کو اڈیالہ جیل میں قائم خصوصی ای کورٹ روم میں بٹھایا گیا جو پہلے بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔

ٹی شرٹ کے کھلے ہوئے بٹن، گلے میں تعویز پہنے عمران خان بظاہر پراعتماد نظر آئے۔ لیکن ان کی کرسی شاید آرام دہ نہ تھی۔ عمران خان ہر دو تین منٹ کے بعد اس کرسی پر بیٹھ کر پہلو بدلتے تھے۔ ان کی باڈی لینگوئج سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ پاس بیٹھے ہوئے جیل کے اہلکار سے اس کرسی کی تبدیلی کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ لیکن سماعت کے دوران جیل کے عملے نے کرسی تبدیل نہیں کی۔

عمران خان کی بکھری ہوئی زلفیں دیکھ کر دوران سماعت ایک خاتون ورکر اس یقین کے ساتھ بار بار ٹی وی سکرین کی جانب ہاتھ ہلا ہلا کر انھیں بال سنوارنے کا اشارہ کر رہی تھیں جیسے عمران خان انھیں دیکھ رہے ہیں۔ کمرہ عدالت میں موجود کارکنوں کی کیفیت کا یہ عالم تھا کہ اگر عمران خان کسی بات پر مسکراتے تو وہ بھی مسکرانا شروع کر دیتے تھے۔

سماعت کے دوران ہی عمران خان کی ایک تصویر، جس میں ان کو کیمرہ کا رخ کیے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، کمرہ عدالت سے باہر سوشل میڈیا کی دنیا میں پہنچ کر وائرل ہوگئی۔ بظاہر کسی نے یہ تصویر سکرین سے کھینچی جس کی اجازت نہیں لیکن جب تک عدالتی عملے کو اس واقعہ کا علم ہوا بہت دیر ہو چکی تھی۔ عدالتی عملے نے سی سی ٹی وی کمیرے کی مدد سے ذمہ دار کا سراغ تو لگا لیا لیکن اس کا فائدہ نہ ہوا۔

یہ ضرور ہوا کہ ویڈیو سٹریمنگ کی نگرانی کرنے والے عدالتی عملے نے عمران خان کی ویڈیو کو، جو کہ پہلے پوری سکرین پر نظر آ رہی تھی، مینیمائزڈ یعنی چھوٹا کر دیا جسے جج حضرات نے فوری نوٹس کیا۔

پانچ رکنی بنچ میں شامل جسٹس اطہر من اللہ، جن کی خود کی نظر بھی ٹی وی سکرین پر ہی مرکوز تھی، نے ویڈیو سٹریمنگ انچارج کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ عمران خان کی ویڈیو کو چھوٹا کیوں کیا گیا؟ تصویر لیک ہونے کے بارے میں آگاہ ہونے کے بعد جسٹس اطہر من اللہ نے عمران خان کی ویڈیو پوری سکرین پر چلانے کا حکم دیا۔

اس دوران مخدوم علی خان، جو کہ اس مقدمے میں وفاقی حکومت کے وکیل ہیں، تین گھنٹے تک دلائل دیتے رہے تو سکرین پر خاموش بیٹھے عمران خان کے چہرے پر بیزاری کے آثار نمایاں تھے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی جب کسی معاملے پر ریمارکس دیتے تو عمران خان جیل کے اندر ای کورٹ میں موجود عملے سے بات کرتے ہوئے نظر آتے۔

واضح رہے کہ اس سماعت سے قبل سابق وزیر اعظم سے ان کی وکلا ٹیم کے ارکان نے بدھ کی شام کو جیل میں ملاقات کی تھی اور انتظار پنجھوتا کے مطابق عمران خان کو کہا گیا تھا کہ انھوں نے جو کچھ کہنا ہے، جمعرات کو ہی کہہ دیں کہ شاید انھیں دوبارہ موقع نہ ملے۔

وکلا کی ہدایات کی روشنی میں عمران خان تیاری تو کرکے آئے ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنے سامنے کچھ کاغذ بھی رکھے ہوئے تھے۔ لیکن تین گھنٹے سے زائد چلنے والی اس عدالتی کاروائی میں اس پانچ رکنی بنچ نے عمران خان کو ایک مرتبہ بھی بولنے کی اجازت نہیں دی۔

بنچ کے سربراہ اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ وفاقی حکومت کے وکیل نے اپنے دلائل کے دوران جو سوالات اٹھائے ہیں ان کے جواب درخواست گزار(عمران خان) سے لیں گے۔ عدالت نے یہ کہہ کر ان اپیلوں کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔

عدالت نے ساتھ ہی یہ حکم دیا کہ آئندہ سماعت پر بھی عمران خان کی ویڈیو لنک پر حاضری کو یقینی بنایا جائے۔

اس صورت حال میں کمرہ عدالت میں موجود صحافیوں کی آپس میں گفتگو سنی تو ایک نکتہ یہ بھی سننے کو ملا کہ قانون قدرت دیکھیں کہ آج وہی وزیر اعظم (عمران خان) انصاف کے حصول کے لیے اس جج (قاضی فائز عیسی) کی عدالت میں پیش ہوا ہے جس کے خلاف انھوں نے ہی اس وقت کے صدر عارف علوی کو سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجنے کا کہا تھا۔

جمعرات کو تو عمران خان کو بولنے کا موقع نہیں ملا۔ اب شاید اگلی سماعت پر یہ ممکن ہو جائے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.