اے آئی اور حیات بعد از موت: وہ شخص جس نے مصنوعی ذہانت کی مدد سے مردہ والد کو ’زندہ‘ رکھا

لوگ غم سے نمٹنے اور اپنوں کو یاد رکھنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں لیکں حال ہی میں اس کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال عام ہو رہا ہے۔
James Valhos made a chatbot from audio recording of his father
Getty Images
جیمز کہتے ہیں کہ چیٹ بوٹ ان کے والد کی یادوں کو دھندلا ہونے نہیں دیتا

جب 2016 میں جیمز ولاہوس کو علم ہوا کہ ان کے والد کو جان لیوا سرطان ہے تو ان کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔

امریکہ میں کیلیفورنیا کے علاقے اوکلینڈ کے رہائشی جیمز کا کہنا تھا کہ وہ اپنے والد سے بہت پیار کرتے تھے لیکن ’میں انھیں کھو رہا تھا۔‘

ایسے میں جیمز نے اپنے والد کے ساتھ میسر باقی وقت کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کا سوچا اور انھوں نے اپنے والد کی زندگی کی کہانی انھی کی زبانی ریکارڈ کرنے میں گھنٹوں گزارے۔

اسی زمانے میں جیمز مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجینس - اے آئی) میں اپنا کیریئر شروع کر رہے تھے، لہذا جلد ہی انھوں نے اپنے والد کی ریکارڈ کی گئی آڈیوز کو ایک آے آئی پروجیکٹ میں تبدیل کر دیا۔

’میں نے سوچا کیسا ہو اگر میں ان سب سے کچھ انٹرایکٹو بنا سکوں؟‘

جیمز کہتے ہیں کہ وہ چاہتے تھے کہ وہ اپنے والد کی یادوں کو زیادہ بہتر طریقے سے محفوظ کرسکیں اور ان کی شاندار شخصیت کا احساس ہمیشہ ان کے ساتھ رہے۔

2017 میں جیمز کے والد جان وفات پا گئے۔ تاہم، تب تک جیمز اپنے والد کی ریکارڈنگز کو ایک اے آئی چیٹ بوٹ میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے جو ان کے والد کی زندگی کے بارے میں سوالات کے جواب دے سکتا تھا وہ بھی ان کی اپنی آواز میں۔

ایک طویل عرصے سے سائنس فکشن فلموں میں لوگوں کو مصنوعی طور پر زندہ رکھنے کے لیے اے آئی کا استعمال دکھایا جا رہا ہے لیکن سائنس میں ترقی کے ساتھ ایسا کرنا اب حقیقی زندگی میں بھی ممکن ہو گیا ہے۔

جیمز نے 2019 میں ’ہیئرآفٹر اے آئی‘ کے نام سے ایک اے آئی ایپ تیار کی جو صارفین کو اپنے پیاروں کو اے آئی چیٹ بوٹ کی صورت میں ہمیشہ زندہ رکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ چیٹ بوٹ ان کے والد کی موت کے غم کو دور نہیں کر سکتا لیکن یہ ان کی یادوں کو دھندلا ہونے نہیں دیتا۔ ’میرے پاس یہ حیرت انگیز انٹرایکٹو کمپنڈیم ہے جس سے میں بات کر سکتا ہوں۔‘

جیمز کے ایپ ہیئرآفٹر کے صارفین اپنے پیاروں کی تصاویر بھی اپ لوڈ کر سکتے ہیں جو ایپ استعمال کرنے کے دوران ان کے سمارٹ فون یا کمپیوٹر کی سکرین پر ظاہر ہوتی ہیں۔

لیکن یہان کچھ کمپنیاں اے آئی چیٹ بوٹس کے معاملے اس سے کہیں آگے نکل گئی ہیں۔

جنوبی کوریائی کمپنی کا تیار کردہ ڈیپ برین اے آئی گھنٹوں کی ویڈیو اور آڈیو شوٹنگ کے بل پر کسی بھی شخص کے چہرے، آواز اور انداز کی نقل کر سکتا ہے۔

ڈیپ برین کے چیف فنانشل آفیسر مائیکل جنگ کا کہنا ہے کہ ان کا اے آئی کسی بھی شخص کا 96.5 فیصد مماثلت سے کلون بنا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر لوگ اپنے مرحوم رشتہ دار کے اے آئی اوتار سے بات کرنے میں بے چینی محسوس نہیں کرتے۔

کمپنی کا خیال ہے کہ اس طرح کی ٹیکنالوجی ایسی روایت کو جنم دے سکتی ہے جس کے تحت لوگ اپنی موت کی پیشگی تیاری کرتے ہوئے اپنے خاندانی تاریخ، کہانیوں اور یادوں کو ’زندہ میراث‘ کے طور پر چھوڑ کر جایا کریں گے۔

بہر صورت یہ عمل سستا نہیں ہے۔ صارفین کو فلم بندی کے عمل اور اپنی خواہش کے مطابق کلون کی تخلیق کے لیے 50 ہزار ڈالرز (£39,000) تک ادا کرنے پڑتے ہیں۔

اتنی لاگت کے باوجود، کچھ سرمایہ کاروں کو یقین ہے کہ یہ ایپ مقبول ہونے میں کامیاب ہوگی۔

ڈیپ برین نے اپنے آخری فنڈنگ راؤنڈ میں 4 کروڑ 40 لاکھ ڈالرز حاصل کرنے میں کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

ماہر نفسیات لاورن اینٹروبس کا کہنا ہے کہ جب آپ کے جذبات عروج پر ہوں تو ایسے وقت میں اس طرح کی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے پوئے بہت احتیاط برتنی چاہیے۔

’یہ خیال کہ آپ کو ان کی [جو وفات پا چکے ہیں] آواز سننے اور ان کے ذریعے بولے گئے الفاظ سننے کا موقع مل سکتا ہے، آپ کے لیے کافی پریشان کن ثابت ہو سکتا ہے۔‘

اینٹروبس کہتی ہیں کہ لوگوں کو اپنے کسی مرحوم عزیز کا چیٹ بوٹ استعمال کرنے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے۔

ہر کسی کا غم منانے کا طریقہ الگ ہوتا ہے لیکن کچھ چیزیں لوگوں میں مشترک بھی ہوتی ہیں۔

ان میں سے ایک چیز کاغذی کارروائی ہے۔ کسی بھی شخص کی وفات کے بعد ان کے بینک، کاروبار اور سوشل میڈیا سائٹس اکاؤنٹس کو بند کروانے کے لیے کاغذی کارروائی مکمل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

ساؤتھ ڈیون سے تعلق رکھنے والی 41 سالہ ایلینور ووڈ کے شوہر اسٹیفن کا گذشتہ سال مارچ میں وفات ہو گیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں دو درجن سے زائد کمپنیوں سے رابطہ کرنا پڑا اور ان میں سے ہر ایک کو فون کرکے اپنے شوہر کی موت کے بارے میں بتانا پڑا۔

وہ کہتی ہیں کچھ کمپنیاں تو کافی مددگار تھیں مگر کچھ سراسر نااہل اور بے وقوف ثابت ہوئیں۔ ’انھوں نے ایسے وقت میں میرے لیے مزید پریشانی پیدا کی جب میں پہلے سے ہی جذباتی طورپر کافی پریشان تھی۔‘

سیٹلڈ (Settled) برطانیہ کا ایک آن لائن پلیٹ فارم ہے جو سوگواروں کی جانب سے نجی شعبے کی تنظیموں سے رابطہ کرتا ہے۔

صارف کو مطلوبہ کاغذات اور ان کمپنیوں کی فہرست اپ لوڈ کرنے ہوتے ہیں جن سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بعد سیٹلڈ ان تنظیموں کو ای میلز بھیجتا ہے۔ بعد ازاں صارف لاگ ان کر کے چیک کرسکتے ہیں کہ ان کے کتنے کام ہوگئے ہیں۔

یہ بینکوں، سوشل میڈیا فرمز، یوٹیلیٹی کمپنیوں جیسے 950 اداروں کے ساتھ کام کرتا ہے۔

وکی ولسن اس کی شریک بانی ہیں جنھوں نے 2020 میں نے اپنی دادی کی موت کے بعد اس کی بنیاد رکھی تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ہم لوگوں کا جتنا بوجھ کم کر سکیں اتنا بہتر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں کسی شخص کی موت کے بعد اس کے اکاؤنٹس وغیرہ بند کروانے اور دیگر کاغذی کارروائیوں میں تقریباً 300 گھنٹے لگتے ہیں۔

ان کے مطابق اس میں سے 70 فیصد کام خودکار طریقے سے ہوسکتا ہے۔

ٹیکنالوجی سے متعلق نیوز ویب سائٹ ٹیک راؤنڈ (TechRound) کے مطابق گریف ٹیک سیکٹر یا جسے ’ڈیتھ ٹیک‘ بھی کہا جاتا ہے کی مالیت 100 ارب پاؤنڈ تک پہنچ چکی ہے۔

ٹیک راؤنڈ کے ایڈیٹر انچیف ڈیوڈ سوفر کا کہنا ہے کہ کرونا وبا کے دوران اس میں بہت تیزی آئی۔

ان کے مطابق کووڈ نے لوگوں کو زندگی کی اہمیت کا احساس دلایا اور لوگوں کو موت کے بارے میں کھل کر بات کرنے کے میں مدد دی۔ ان سب کے نتیجے میں غم سے نمٹنے کے لیے ٹیک کے استعمال کو تیزی سے قبولیت حاصل ہوئی۔

’ایک ساتھ بہت سارے لوگوں کو مطلع کرنے کی صلاحیت، آڈیو ریکارڈنگ یا تصویروں اور ویڈیوز کے ذریعے لوگوں کی یادوں کو زندہ رکھ پانا، یہ سب اہم ہیں۔‘

لیکن سوفر کا خیال ہے کہ اس رجحان کا مطلب کہیں گہرا ہے۔ ’تکنیکی مسائل کے حل کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال اچھی بات ہے لیکن ٹیکنالوجی کا اصل مقصد غیر تکنیکی مسائل کا حل جیسے کہ لوگوں کو غم سے نبردآزما ہونے میں مدد دینا ہے۔‘

تاہم، اینٹروبس کے خیال میں جب غم پر قابو پانے کی بات آتی ہے تو انسانی مدد کا کوئی متبادل نہیں۔

’میں تصور نہیں کر سکتی کہ ٹیکنالوجی غم پر قابو پانے کے روایتی پہلوؤں جس سے آپ کو لوگوں کے قریب ہونے یا آپ کا خیال رکھنے کے احساس ہوتا ہے، اس کا متبادل ہو سکتی ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.