ٹک ٹاک پر پابندی لگی تو ان کا کیا ہو گا جن کی یہ آواز بنی؟

ایسے وقت میں جب ٹک ٹاک دنیا کی مقبول ترین ایپس میں سے ایک بن چکی ہے انڈین ٹک ٹاک اکاؤنٹس اور ویڈیوز آج بھی آن لائن موجود ہیں اور وقت کے دھارے میں منجمد دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں امریکہ میں ٹک ٹاک پر ممکنہ پابندی اور اس کے صارفین کے مستقبل کے بارے میں باآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
ٹک ٹاک
Getty Images

چار سال قبل تک 20 کروڑ صارفین کے ساتھ انڈیا ٹک ٹاک کی سب سے بڑی مارکیٹ ہوا کرتی تھی۔ یہ ایپ لوگوں کی زندگیاں تبدیل کر رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ ٹک ٹاک کی مقبولیت کو کوئی روک نہیں پائے گا اور تب ہی انڈیا اور چین کے درمیان سرحدی تنازع شدت اختیار کر گیا۔

اس کے بعد جون 2020 میں انڈین حکومت نے راتوں رات ٹک ٹاک پر پابندی عائد کردی۔

ایسے وقت میں جب ٹک ٹاک دنیا کی مقبول ترین ایپس میں سے ایک بن چکی ہے انڈین ٹک ٹاک اکاؤنٹس اور ویڈیوز آج بھی آن لائن موجود ہیں اور وقت کے دھارے میں منجمد دکھائی دیتے ہیں۔

اس سے آپ امریکہ میں ٹک ٹاک اور اس کے صارفین کے مستقبل کے بارے میں باآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں۔

24 اپریل کو امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک قانون پر دستخط کر دیا ہے جس کے بعد امریکہ میں ٹک ٹاک پر مستقل بنیادوں پر پابندی لگ سکتی ہے۔

نئے قانون کے مطابق، ٹک ٹاک کی مالک کمپنی بائٹ ڈانس نو مہینوں کے اندر کمپنی میں اپنے حصص بیچ سکتی ہے بصورت دیگر امریکہ میں ایپ پر مستقل پابندی لگا دی جائے گی۔

تاہم، بائٹ ڈانس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے حصص فروخت نہیں کرے گی اور اس قانون کو عدالت میں چیلنج کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ امریکہ کی ٹیکنالوجی کی تاریخ میں اتنے بڑے سوشل میڈیا ایپ پر پابندی لگائے جانے کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ تاہم، انڈیا سے ہمیں سیکھنے کو ملتا ہے کہ جب کوئی حکومت ایسی کسی ایپ پر مکمل طور پر پابندی لگا دیتی ہے۔

انڈیا واحد ملک نہیں جس نے ٹک ٹاک پر پابندی عائد کی ہو۔

نومبر 2023 میں نیپال نے بھی ٹک ٹاک پر پابندی لگا دی تھی جب کہ پاکستان میں بھی ٹک ٹاک پر کئی مرتبہ جزوی پابندی لگ چکی ہے۔

ایسے میں جب امریکہ کے 15 کروڑ ٹک ٹاک صارفین ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں، انڈیا میں پابندی کی کہانی ثابت کرتی ہے کہ کہ صارفین بہت جلدی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ایسی پابندیوں کے نتیجے میں ان ایپس کےنتیجے میں جنم لینے والی ثقافت بھی ان کے ساتھ ہی دم توڑ جاتی ہیں۔

ٹک ٹاک
Getty Images
پابندی لگنے سے پہلے انڈیا میں ٹک ٹاک کے20 کروڑ سے زائد صارفین موجود تھے

سچارتا تیاگی ممبئی سے تعلق رکھنے والی ایک فلم ناقد ہیں۔

جب جون 2020 میں انڈین حکومت کی جانب سے ٹک ٹاک پر پابندی عائد کی گئی تو اس وقت ان کے 11 ہزار فالوورز تھے اور ان کی کئی ویڈیوز لاکھوں بار دیکھی جا چکی تھی۔

تیاگی کہتی ہیں کہ اس وقت ٹک ٹاک بہت مقبول تھا۔ پورے ملک کے لوگ اس ایپ پر اکٹھے ہو رہے تھے، رقص کرتے تھے، سکیٹس لگاتے تھے، لوگ پہاڑی علاقوں میں واقع اپنے چھوٹے سے شہر میں اپنے روزمرہ کے معاملات کے بارے میں پوسٹ کر رہے تھے۔

اس ایپ کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ٹک ٹاک دیہی علاقوں میں مقیم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ مواقع دے رہا تھا۔ ان میں سے کئی افراد اتنے مقبول ہو گئے کہ وہ سلیبرٹیز بن گئے۔

پراسنٹو رائے کا تعلق نئی دہلی سے ہے اور وہ ٹیکنالوجی کے بارے میں لکھتے ہیں۔

ان کے مطابق پہلی بار ایسا ہوا تھا لوگ وہ دیکھ پا رہے تھے جو وہ واقعی دیکھنا چاہتے تھے۔ ’ہم نے دیکھا کہ دیہاتی پس منظر سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد مشہور ہونا شروع ہوئے جو عام حالات میں مشہور ہونے یا ایپ سے پیسے کمانے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ہائپر لوکل ویڈیوز کے معاملے میں ٹک ٹاک جیسا کچھ بھی نہیں تھا۔‘

ٹک ٹاک کو امریکہ میں بھی اسی طرح کی ثقافتی اہمیت حاصل ہے جہاں لاتعداد چھوٹے تخلیق کاروں اور کاروباروں کی روزی روٹی اس ایپ سے جڑی ہوئی ہے۔

ایسا آپ کو کسی دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔

مثال کے طور پر انسٹاگرام ان اکاؤنٹس کو زیادہ پروموٹ کرتا ہے جن کے زیادہ فالوورز ہوں، جبکہ ٹک ٹاک اپنے صارفین کو باقاعدگی سے پوسٹ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

جب انڈیا میں ٹک ٹاک پر پابندی لگی تو اس کے ساتھ ہی حکومت نے 58 دیگر چینی ایپس پر بھی پابندی لگا دی۔ ان میں سے کچھ ایپس آج کل امریکہ میں کافی مقبول ہو رہی ہیں۔

’شین‘ (Shein) بھی ایسی ہی ایک چینی فیشن ایپ ہے۔

ٹک ٹاک کے بعد، انڈیا نے ’شین‘ پر بھی پابندی لگا دی تھی۔ تاہم، حال ہی میں کامیاب مذاکرات کے بعد، شین کا ایک انڈین ورژن متعارف کروایا گیا ہے۔

امریکہ میں بھی ایسا ہی کچھ ہو سکتا ہے۔

اس نئے قانون کے نتیجے میں ٹک ٹاک پر پابندی سے امریکی حکام کو ایک نظیر مل گئی ہے جسے استعمال کرتے ہوئے وہ دیگر چینی ایپس پر بھی پابندی عائد کر پائیں گے۔

امریکی سیاست دانوں کی جانب سے ٹک ٹاک کے بارے میں رازداری اور قومی سلامتی کو لے کر جن خدشات کا اظہار کیا گیا ہے ان کا اطلاق دیگر کمپنیوں پر بھی ہو سکتا ہے۔ جب بھی کسی مشہور ایپ پر پابندی لگتی ہے تو دیگر ایپس اس کی جگہ لینے کی کوشش ضرور کرتی ہیں۔

نکھل پاہوا نیوز ویب سائٹ ’میدیا نامہ‘ کے بانی اور ٹیکنالوجی پالیسی کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹک ٹاک پر پابندی عائد ہوتے ہی کئی انڈین سٹارٹ اپس نے اس کی جگہ لینے کے لیے کوششیں شروع کر دیں۔

ٹک ٹاک
Getty Images
امریکہ میں ٹک ٹاک پر پابندی کے امکان نے بہت سے چھوٹے کاروباروں اور پیشہ ور افراد کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے جو پلیٹ فارم پر انحصار کرتے ہیں

مہینوں تک، انڈین ٹیکنالوجی پریس میں ان نئی سوشل میڈیا کمپنیوں بشمول چنگاری، موج اور ایم ایکس ٹک ٹاک کے بارے میں تواتر سے خبریں آتی رہی۔ ان میں سے کچھ کو ابتدائی طور پر کسی حد تک کامیابی تو حاصل ہوئی لیکن ٹک ٹاک کی جگہ حاصل کرنے کی یہ جنگ زیادہ دیر نہیں چلی۔

اگست 2020 میں، انسٹاگرام نے ریلز (Reels) کے نام سے مختصر ویڈیوز کی فیڈ شروع کی۔ یوٹیوب نے بھی شارٹس (Shorts) کے نام سے اپنے پلیٹ فارم پر ٹِک ٹِاک کی طرز پر مختصر ویڈیوز جاری کردی۔

یوٹیوب اور انسٹاگرام کے میدان میں آنے کے بعد نئے اسٹارٹ اپس کے لیے کوئی موقع نہ رہا۔

پرتیک واگھرے انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹک ٹاک پر پابندی کے بعد اس کے متبادل ایپس کافی مشہور ہوئے لیکن ان میں سے بیشتر کچھ عرصے بعد ہی ناکام ہوگئے۔ ’آخر میں شاید سب سے زیادہ فائدہ انسٹاگرام کو ہوا۔‘

کچھ وقت میں ہی بیشتر انڈین ٹک ٹاکرز اور ان کے پرستار میٹا اور گوگل کی ایپس پر منتقل ہو گئے، اور ان میں سے کئی افراد کو وہاں بھی کامیاب ملی۔

گیت بھی ایسی ہی ٹک ٹاکر ہیں جو ٹک ٹاک پر لوگوں کو ’امریکی انگلش‘ سکھا کر اور لوگوں کو زندگی کے مشورے دے کر مشہور ہوئی تھِیں۔

جب ٹک ٹاک پر پابندی لگائی گئی تو اس وقت ان کے تین اکاؤنٹس پر ان کے ایک کروڑ سے زائد فالوورز تھے۔

سنہ 2020 میں بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں گیت نے اپنے مستقبل کو لے کر خدشات کا اظہار کیا تھا۔ اس بات کو چار سال ہو چکے ہیں اور آج ان کے انسٹاگرم اور یوٹیوب پر 50 لاکھ کے قریب فالوورز ہیں۔

تاہم، بی بی سی نے جن صارفین اور ایکسپرٹ سے بات کی ہے ان کا کہنا ہے کہ بے شک انسٹاگرام اور یوٹیوب ٹک ٹاک کی ٹریفک حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں لیکن وہ جادو قائم کرنے میں ناکام رہے جو ٹک ٹاک نے پیدا کیا تھا۔

پاہوا کہتے ہیں کہ ٹک ٹاک کے تخلیق کار انسٹاگرام اور یوٹیوب پر پائے جانے والے تخلیق کاروں سے بالکل مختلف تھے۔

’آپ کے پاس کسان تھے، اینٹ کے بھٹوں پر کام کرنے والے مزدور، اور چھوٹے شہروں کے لوگ ٹک ٹاک پر ویڈیوز اپ لوڈ کر رہے تھے۔ یوٹیوب شارٹس اور انسٹاگرام ریلز پر ایسے تخلیق کار نہیں دکھتے۔‘

اگر امریکہ میں ٹِک ٹاک پر پابندی لگ جاتی ہے تو، امریکی سوشل میڈیا کا منظرنامہ بھی انڈیا جیسا ہو سکتا ہے۔ انسٹاگرام اور یوٹیوب پہلے ہی خود کو مختصر ویڈیوز کے پلیٹ فارم کے طور پر منوا چکے ہیں۔ اب تو لنکڈ ان (LinkedIn) بھی ٹک ٹاک طرز کی ویڈیو فیڈ کا تجربہ کر رہا ہے۔

ٹک ٹاک کے حریفوں نے ثابت کیا ہے کہ انھیں کامیاب ہونے کے لیے اس جیسا بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ انڈیا کی طرح امریکہ کا ہائپر لوکل مواد ختم ہو جائے گا۔

تاہم، انڈیا کی بجائے امریکہ پر پڑنے والے ثقافتی اثرات کہیں زیادہ ہوں گے۔ پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق، 18 سے 29 سال کی عمر کے تقریباً ایک تہائی امریکی ٹک ٹاک خبروں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

امریکہ میں ٹک ٹاک کے صارفین کی تعداد 17 کروڑ ہے جو انڈیا کے 20 کروڑ صارفین سے کم ہے۔ لیکن انڈیا کی آبادی 1.4 نفوس پر مشتمل ہے جبکہ امریکہ کی آبادی 33 کروڑ سے زائد ہے جس میں سے تقریباً نصف ٹک ٹاک پر موجود ہے۔

ٹک ٹاک
Getty Images
ٹک ٹاک پر انڈیا میں پابندی ایسے وقت میں لگائی گئی جب چین اور انڈیا کے درمیان سرحدی تناؤ شدت اختیار کر چکا تھا

تیاگی کا کہنا ہے کہ ’جب ٹک ٹاک پر انڈیا میں پابندی عائد کی گئی تو اس وقت یہ ایپ ویسی نہیں تھی جیسی اب ہے۔‘

’میرے خیال میں امریکہ میں اس پر پابندی لگانے سے بہت زیادہ اثر پڑے گا۔‘

دوسری جانب ٹک ٹاک پہلے ہی امریکی حکومت کے اس اقدام کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کر چکا ہے۔

ٹک ٹاک انڈیا میں بھی قانونی راستہ اپنا سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔انڈیا میں لگائی جانے والی پابندی بھی فوری طور پر محض چند ہفتوں کے اندر نافذ ہو گئی تھی۔ مگر امریکہ میں ٹِک ٹاک کے کیس کا عدالت سے فیصلہ آنے میں برسوں لگ سکتے ہیں اور اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ امریکی عدالت اس قانون کو برقرار رکھے گی۔

امریکہ میں ٹک ٹاک پر پابندی کے رد عمل میں امریکہ اور چین کے درمیان ایک تجارتی جنگ شروع ہونے کا خطرہ ہے۔

پاہوا کے خیال میں چین بھی امریکی کمپنیوں کے خلاف ایسی پابندیوں عائد کر سکتا ہے۔

’چین نے ٹک ٹاک پر پابندی لگانے پر انڈیا کی مذمت تو کی تھی لیکن کوئی واضح جوابی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔ لیکن امریکہ شاید اتنا خوش قسمت نہ ہو۔‘

انڈیا میں ٹک ٹاک پر پابندی پر چین کے ردعمل کی متعدد وجوہات ہیں۔ ایک حقیقت یہ ہے کہ چین میں انڈیا کی ٹیک انڈسٹری موجود نہیں ہے۔ دوسری جانب، امریکہ کی ٹیک انڈسٹری جوابی کارروائی کے لیے کافی مواقع فراہم کرتی ہے۔ چین پہلے ہی امریکی ٹیکنالوجی کو مقامی متبادل کے ساتھ تبدیل کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔ ٹک ٹاک پر پابندی سے اس میں تیزی آسکتی ہے۔

ٹک ٹاک پر پابندی سے تیاگی کی کمائی پر فرق نہیں کیونکہ وہ اس کو صرف اپنے کاموں کی تشہیر کے لیے استعمال کر رہی تھیں۔

جب وہ امریکہ گئیں تو یہ دیکھ کر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ان اکاؤنٹ اب بھی چل رہا تھا۔

ان کو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ ماضی میں واپس چلی گئی ہوں۔ انھوں نے کچھ ویڈیوز بھی پوسٹ کیں۔ لیکں انڈیا میں موجود ان کے زیادہ تر فالوورز وہ ویڈیو نہیں دیکھ پائے ہوں گے۔ لیکن انھیں بیرون ملک مقیم انڈین کمیونٹی کی جانب سے تھوڑی بہت پذیرائی ملی۔

تیاگی کہتی ہیں کہ لاکھوں انڈین ٹک ٹاک اکاؤنٹس اب بھی موجود ہیں۔ ’یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ٹک ٹاک نے اب تک ان اکاؤنٹس کو رکھا ہوا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ شاید ان کو امید ہو کہ انڈیا ٹک ٹاک سے پابندی ہٹا دے گا۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.