وہ ملک جہاں ’برف‘ روٹی سے بھی مہنگی ہے

افریقی ملک مالی میں بجلی نہ ہونے کا مطلب ہے کہ رات میں پنکھے نہیں ہیں، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ گھروں سے باہر سونے پر مجبور ہیں اور یہ لوگوں کی صحت کو متاثر کر رہا ہے۔
علامتی تصویر
BBC

افریقی ملک مالی میں اس قدر ریکارڈ توڑ گرمی پڑی ہے کہ وہاں کے کچھ حصوں میں بازار میں ملنے والی برف کی قیمت روٹی اور دودھ سے زیادہ ہو گئی ہے۔

دارالحکومت باماکو میں ایک مقامی دکان پر پندرہ سالہ فاطمہ یاترا کہتی ہیں کہ ’میں برف خریدنے آئی ہوں کیوں کہ اب بہت گرمی ہے۔‘

بجلی کی طویل بندش اور فریج نہ ہونے کی وجہ سے، وہ ہیٹ ویو کے دوران کھانا محفوظ رکھنے اور ٹھنڈا رکھنے کے لیے برف کے ٹکڑے استعمال کرتی ہیں۔ ملک میں درجہ حرارت 48 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا ہے۔

لیکن یہ طریقہ بھی ایک حد تک کام کرتا ہے، لیکن قیمتوں میں اضافہ صورتحال کو اور بھی مشکل بنا رہا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’کچھ جگہوں پر ایک چھوٹے لفافے میں برف آپ کو 100 فرانک (مقامی کرنسی) میں مل رہی ہے تو کہیں 300 سے 500 تک۔۔ یہ بہت مہنگی ہے۔‘

اس صورتحال نے برف کو روٹی سے زیادہ مہنگا بنا دیا ہے۔ ایک معیاری مقامی روٹی کی قیمت عام طور پر تقریباً 250 فرانک ہوتی ہے۔

نانا کوناٹے ٹراؤرے کے لیے یہ اس سے بھی بڑی جدوجہد ہے، جو اب ہفتے میں چند مرتبہ کے بجائے روزانہ کھانا پکانے پر مجبور ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’ہم اکثر پورا دن بجلی کے بغیر گزارتے ہیں، اس لیے کھانا خراب ہو جاتا ہے، اور اسے پھینکنا پڑتا ہے۔‘

یہ مسائل تقریباً ایک سال قبل اس وقت شروع ہوئے جب مالی کی سرکاری پاور کمپنی حالیہ برسوں میں کروڑوں ڈالر کے قرضوں کے بعد بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے میں ناکام رہی۔

مالی کے بہت سے باشندوں کے پاس بیک اپ جنریٹر نہیں ہیں کیونکہ ان میں ایندھن بھرنا مہنگا ہے۔

بجلی نہ ہونے کا مطلب ہے کہ رات میں پنکھے نہیں ہیں، جس کی وجہ سے بہت سے لوگ گھروں سے باہر سونے پر مجبور ہیں اور یہ لوگوں کی صحت کو متاثر کر رہا ہے۔

باماکو کے مضافات میں واقع یریماڈیو ضلع سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان سومیلا میگا کا کہنا ہے کہ ’ہم واقعی تکلیف میں ہیں۔ رات میں درجہِ حرارت 46 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے، یہ ناقابل برداشت ہے کیونکہ مجھے چکر آتے ہیں اور خود پر پانی ڈالنا پڑتا ہے۔‘

مارچ کے بعد سے مالی کے کچھ حصوں میں درجہ حرارت 48 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا ہے جس کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ سب سے زیادہ خطرے میں بوڑھے اور کم عمر افراد ہیں۔

باماکو کے یونیورسٹی ہسپتال میں کام کرنے والے پروفیسر یعقوبا ٹولوبا کا کہنا ہے کہ ’ہم ایک دن میں تقریباً 15 مریضوں کو ہسپتال میں داخل ہوتے دیکھ رہے تھے۔‘

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بہت سے مریض پانی کی کمی کا شکار ہیں۔ اس کی بنیادی علامات کھانسی اور سانس کی بندش ہیں۔ کچھ لوگوں کو سانس لینے میں بھی دشواری ہوتی ہے۔‘

بعض علاقوں میں احتیاطاً سکول بند کر دیے گئے ہیں۔

پروفیسر ٹولوبا کہتے ہیں’ہمیں ان حالات کے لیے مزید منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے، اس بار اس (گرمی کی شدت) نے ہمیں چونکا دیا ہے۔‘

سومیلا میگا
BBC
سومیلا میگا کا کہنا ہے کہ ’ہم واقعی تکلیف میں ہیں۔ رات میں درجہِ حرارت 46 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے، یہ ناقابل برداشت ہے

مہلک ہیٹ ویو سینیگال، گنی، برکینا فاسو، نائیجیریا، نائجر اور چاڈ جیسے ہمسایہ ممالک کو بھی متاثر کر رہی ہے۔

ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن کے سائنس دانوں کے مطابق موسم کی شدت میں انتہائی اضافے کی وجہ انسانوں کی وجہ سے ہونے والی موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر انسانوں نے فوسل ایندھن جلا کر کرہ ارض کو گرم نہ کیا ہوتا تو مالی اور برکینا فاسو میں گرمی 1.5 سینٹی گریڈ کم ہوتی۔

باماکو میں آئندہ چند ہفتوں کے دوران درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ رہنے کا امکان ہے، لوگ نئے معمولکے درجہِ حرارت کے مطابق ڈھلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جیسے ہی دارالحکومت میں سورج غروب ہوتا ہے، وناٹے ٹراؤرے کئی بڑی چٹائیاں باہر اپنے صحن میں لے جاتی ہیں اور انھیں نیچے بچھاتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’گرمی کی وجہ سے ہمیں ہر وقت باہر رہنا پڑتا ہے۔ شدید گرمی میں، میں بیمار ہو جاتی ہوں۔ یہ سب آسان نہیں ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.