ملت ایکسپریس واقعہ: ’چلتی ٹرین سے گرنے والی خاتون کے سر کے پچھلے حصے پر فریکچر ہے‘

ملت ایکسپریس کی مسافر مریم بی بی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق کئی اعضا پر چوٹیں آئیں اور متعدد ہڈیاں فریکچر ہوئیں جس سے خاتون کا کافی زیادہ خاتون بہہ گیا اور دل کا دورہ پڑنے سے فوراً موت واقع ہوگئی۔ رپورٹ سے یہ واضح نہیں ہوسکا کہ آیا خاتون کی موت خودکشی، حادثے یا قتل کے نتیجے میں ہوئی۔

کراچی سے فیصل آباد جانے والی ملت ایکسپریس کی مسافر مریم بی بی کی موت کا معاملہ گذشتہ ایک ہفتے سے مقامی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کی توجہ حاصل کر رہا ہے۔

کیس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کئی سنگین زخموں کی نشاندہی کی گئی تاہم اس میں یہ واضح نہیں ہوسکا کہ خاتون کی موت خودکشی، حادثے یا قتل کے نتیجے میں ہوئی۔

مریم بی بی کے اہلخانہ کا دعویٰ ہے کہ انھیں سات اپریل کو چلتی ریل گاڑی سے دھکا دے کر قتل کیا گیا تاہم پاکستان ریلویز نے دیگر مسافروں کا حوالہ دے کر کہا کہ ’خاتون نے اچانک چلتی ٹرین سے چھلانگ لگائی۔‘

اس واقعے پر ڈی آئی جی ریلوے پولیس ساؤتھ زون کی سربراہی میں چار رکنی انکوائری کمیٹی مزید تحقیقات کر رہی ہے۔

ادھر خاتون کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بتایا گیا کہ تمام چوٹیں ’ٹرین ایکسیڈنٹ‘ یعنی ٹرین سے گرنے کے حادثے کا نتیجہ ہیں۔ اس رپورٹ میں سر کے پچھلے حصے، گردن، سینے، پیٹ اور دائیں ران پر چوٹوں کی نشاندہی کر کے کہا گیا ہے کہ یہ تمام زخم موت کی وجہ بنے۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق کئی اعضا پر چوٹیں آئیں اور متعدد ہڈیاں فریکچر ہوئیں جس سے خاتون کا کافی زیادہ خاتون بہہ گیا اور دل کا دورہ پڑنے سے فوراً موت واقع ہو گئی۔ ’اس نوعیت کے زخم عام حالات میں موت کا باعث بننے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔‘

تاہم اس رپورٹ کے منظرعام پر آنے کے باوجود یہ کیس مزید الجھ گیا۔ بی بی سی نے دو فارنزک ماہرین سے بات کی ہے جنھوں نے پورٹ مارٹم رپورٹ کی روشنی میں کہا کہ خاتون کو دھکا دیے جانے یا ان کا پیر پھلسنے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

مریم بی بی کی موت پر اہلخانہ اور پاکستان ریلویز کے بیانات

مریم بی بی کے اہلخانہ نے تھانہ صدر جڑانوالہ میں اندراج مقدمہ کی درخواست میں الزام عائد کیا ہے کہ بیوٹی پارلر میں محنت مزدوری کرنے والی 29 سالہ خاتون کراچی ملت ایکسپریس سے فیصل آباد آ رہی تھیں جب ریل گاڑی کا ایک پولیس کانسٹیبل انھیں ’غلط نگاہ سے‘ دیکھ رہا تھا اور راستے میں ’چھیڑ خانی‘ کر رہا تھا۔

سات اپریل کے اس واقعے کے حوالے سے اہلخانہ کا دعویٰ ہے کہ کانسٹیبل ’منع کرنے پر تشدد کا نشانہ بناتا، رائفل تان لیتا اور بٹ وغیرہ مارتا اور کھینچ کر کبھی گیٹ کی جانب لے جاتا اور کبھی ڈبے میں لے جاتا۔ دیگر مسافروں نے اسی وقت ویڈیو بنائی جو وائرل ہو گئی۔‘

اندارج مقدمہ کی درخواست میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ جب گاڑی بہاولپور کی تحصیل احمد پور شرقیہ پہنچی تو کانسٹیبل نے ’جان بوجھ کر سرکاری کام میں غفلت اور لاپرواہی کرتے ہوئے (مریم بی بی کو) چلتی ریل گاڑی سے دھکا دے کر گیٹ سے باہر پھینک دیا‘ جس کے بعد انھوں نے زخموں کی تاب نہ لا کر دم توڑ دیا۔

مریم بی بی کے اہلخانہ نے اس ’ناحق قتل‘ کے خلاف قانونی کارروائی اور انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔

تاہم 15 اپریل کو پاکستان ریلویز نے اپنی پریس ریلیز میں لکھا تھا کہ دورانِ سفر مریم بی بی نے ’مسافروں کا سامان بکھیرنا شروع کر دیا جس پر مسافروں نے پولیس کانسٹیبل کو بلایا۔ کانسٹیبل نے خاتون پر ہاتھ اٹھایا اور انھیں دوسرے ڈبے میں شفٹ کر دیا۔‘

اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ڈی آئی جی ریلوے پولیس ساؤتھ زون کی سربراہی میں چار رکنی انکوائری کمیٹی بنائی گئی ہے۔

ترجمان پاکستان ریلویز نے کہا ہے کہ ’خاتون کے ساتھ سفر کرنے والے مسافروں کے بیان کے مطابق خاتون نے اچانک چلتی ٹرین سے چھلانگ لگائی۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’خاتون کے لواحقین کے مطابق خاتون کا ذہنی توازن درست نہیں تھا۔ پولیس کانسٹیبل کو انتہائی غیر مناسب رویے پر گرفتار کر لیا گیا تھا اور اس کے خلاف مقدمہ درج ہے۔‘

پاکستان ریلویز کے مطابق یہ کمیٹی ’تین روز میں چیئرمین ریلوے کو رپورٹ پیش کرے گی۔‘

بی بی سی کے نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق خاتون پر تشدد کے الزام میں ریلوے پولیس کے گرفتار کانسٹیبل کو 13 اپریل کو حیدرآباد میں مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے پولیس ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انھیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تاہم 16 اپریل (منگل) کو حیدرآباد میں ریلوے پولیس نے سول جج اینڈ جوڈیشل مجسٹریٹ سے ایک درخواست میں استدعا کی ہے کہ ریلوے پولیس کا مذکورہ کانسٹیبل ضمانت حاصل کرنے کے بعد تفتیش میں کوئی تعاون نہیں کر رہا۔

’ملزم کا میڈیکل کرانا نہایت ضروری ہے تاکہ ملزم کی ذہنی کیفیت کے بارے میں مجاز میڈیکل آفیسر سے سرٹیفیکیٹ حاصل کیا جا سکے۔‘

ریلوے پولیس نے درخواست کی ہے کہ ملزم سے تفتیش کے لیے ان کا ضمانتی حکمنامہ منسوخ کیا جائے اور ان کا پولیس ریمانڈ منظور کیا جائے۔

خیال رہے کہ پاکستان ریلویز کا موقف ہے کہ خاتون پر ہاتھ اٹھانے والے کانسٹیبل کی ڈیوٹی ’کراچی سے حیدر آباد تک تھی‘ جبکہ خاتون کے ٹرین سے گرنے کا واقعہ ضلع بہاولپور کے ریسکیو 1122 میں رپورٹ ہوا۔

آٹھ اپریل کو بہاولپور کی تحصیل احمد پور میں ریسکیور 1122 کے کنٹرول روم نے واقعے کی اطلاع ’خاتون نے چلتی ٹرین سے چھلانگ لگائی‘ کے عنوان سے دی جس میں لکھا تھا کہ ’ریسکیو سٹاف کے مطابق خاتون اپنے بچوں کے ہمراہ ملت ایکسپریس پر حکیم آباد کراچی سے فیصل اباد کی طرف جا رہی تھی کہ راستے میں صبح ساڑھے چھ بجے کے قریب چنی گوٹھ کے مقام پر خاتون کھڑکی کے ذریعے ٹرین سے نیچے کود گئیں اور موقع پر ہی جاں بحق ہو گئیں۔‘

اس میں مزید لکھا گیا کہ خاتون کے بچوں کے مطابق ان کی والدہ کو ’جنات کا سایہ ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے روکنے کے باوجود انھوں نے کھڑکی سے چھلانگ لگا دی۔‘

پوسٹ مارٹم رپورٹ پر فارنزک ماہرین کیا کہتے ہیں؟

بی بی سی نے اس کیس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سمجھنے کے لیے فارنزک اور میڈیکو لیگل کے دو ماہرین سے بات کی جن کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں خاتون کو ٹرین سے دھکا دیا جانا خارج از امکان نہیں۔

میڈیکو لیگل کے ماہر ایک ڈاکٹر نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ خاتون کے جسم پر موجود زخموں کو دیکھ کر بظاہر ایسا لگتا ہے کہ خاتون ٹرین سے سر کے بل گریں، جو دھکا دینے یا پیر پھسلنے سے ہوسکتا ہے۔

اس حوالے سے وہ دلائل دیتے ہیں کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں جس پہلے زخم کے بارے میں بتایا گیا وہ خاتون کے سر پچھلے حصے پر ہے۔ ’ایک چوٹ سر کے پیچھے ہیں اور باقی تمام چوٹیں جسم کے اگلے حصے پر ہیں۔ یہ معیوب بات ہے۔‘

انھوں نے یہ کیس سمجھانے کے لیے کہا کہ ’اگر کوئی خودکشی کی نیت سے (ٹرین کے دروازے سے) چھلانگ لگائے تو وہ اپنے ماتھے یا چہرے کے بل گرے گا۔‘

فارنزک کے ماہر نے کہا کہ دروازے کی بجائے کھڑکی سے باہر چھلانگ لگانا قدرے مشکل ہے کیونکہ اس کا سائز چھوٹا ہوتا ہے اور اس میں سے کسی کا گزرنے آسان نہیں۔ ’کھڑکی سے جسم باہر نکالنے کا مطلب ہے کہ پہلے کھڑکی سے لٹکا جائے۔ اس صورت میں جسم اپنی حالت میں نہیں بچ سکتا کیونکہ پورا جسم پہیے کے نیچے آسکتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ دوسری صورت میں اگر ایک شخص کو ٹرین سے دھکیلا جائے تو ایسا نہیں ہوتا کہ پہلے اس کا جسم زمین سے ٹکراتا ہے اور بعد میں سر۔ ان کی رائے میں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انھیں ٹرین سے باہر پھینکا گیا، ان کے سر کا پچھلا حصہ زمین سے ٹکرایا جسے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں انجری ون کہا گیا۔ ’(اس کے برعکس) ٹرین سے چھلانگ لگانے کی صورت میں پہلے منھ اور ہاتھوں پر چوٹیں آتی ہیں۔‘

وہ مزید بتاتے ہیں کہ خاتون کا ایک ہاتھ باڈی سے مسنگ ہے، وہ شاید پہیے کے نیچے آیا اور اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ پہلے سر کا پچھلا حصہ زمین سے ٹکرایا ہوگا۔

فارنزک کے ایک دوسرے ماہر کا کہنا ہے کہ اس پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ظاہر ہوا ہے کہ جسم کے بعض حصے کرش ہوئے، پسلیوں پر فریکچر ہے اور کھوپڑی کی ہڈی پر بھی فریکچر ہے۔ اس میں نیوروجینک شاک کا بھی ذکر ہے جو ریڑھ کی ہڈی پر چوٹ آنے کے بعد ہوتا ہے اور اس صورت میں خون کی شریانیں کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کی وجہ کسی ایک چوٹ یا زخم کو قرار نہیں دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ کے مطابق آکسیپٹل بون (کھوپڑی کی پچھلی ہڈی) پر فریکچر ہے تو یہ شاید پہلے زمین سے ٹکرانے سے فریکچر ہوا اور یہ بھی ممکن ہے کہ باقی چوٹیں بعد میں آئی ہوں۔

تاہم انھوں نے بتایا کہ جائے وقوعہ سے حاصل کیے گئے باقی شواہد کی بنیاد پر ہی اس موت کو خودکشی، حادثہ یا قتل قرار دیا جا سکتا ہے اور ’ابھی تک یہ ایک ایسا کیس ہے جس کا تعین نہیں ہوسکا۔ (اسی لیے) پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کہیں بھی اسے (محض) حادثہ قرار نہیں دیا گیا۔‘

انھوں نے کہا کہ تفتیش کار مختلف پہلوؤں سے اس کی تحقیقات کریں گے جیسے یہ کہ اگر خاتون خودکشی کی نیت سے ٹرین میں سفر کر رہی تھیں تو وہ اپنے خاندان کے ساتھ کیوں تھیں یا پھر آیا خاتون کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جا رہی تھی جس دوران ان کا پیر پھسل گیا۔

’اس میں مینر آف ڈیتھ کے لیے کافی چیزوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ یہ کوئی ویسا کیس نہیں جس میں مقتول کو ایک گولی لگی ہو اور وثوق سے کہا جا سکے کہ موت کی وجہ یہی گولی تھی تاہم اس کیس میں خاتون کے جسم پر کئی چوٹوں کی نشاندہی کی گئی۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.