’شادی کے ہنگامے میں تنہا کھڑا سپہ سالار‘

شادیوں کا موسم ہے یعنی شادیوں پر نہ چاہتے ہوئے بھی جانا پڑتا ہے۔ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ عین شادی کے بیچ میں جب ایک ہجوم کھانے کی طرف لپک رہا ہوتا ہے یا کُچھ لوگ کار پارک میں کش لگا رہے ہوتے ہیں تو کہیں سے آپ کے کندھے پر ایک ہاتھ آتا ہے اور کوئی بھولا بسرا بزرگ آپ سے شکوے میں ڈوبی آواز میں پوچھتا ہے میاں پہچانا نہیں۔

نہ کسی شادی میں نہ شادی کے باہر کسی جنرل سے ملا ہوں۔ لیکن گذشتہ سال شادیوں کے موسم میں ایک دوست نے لاہور کی ایک شادی کا آنکھوں دیکھا قصہ سُنایا تھا کہ سابق سپہ سالار اشفاق پرویز کیانی ایک کونے میں کھڑے تنہا سگریٹ پی رہے تھے۔ کئی حاضر سروس جنرل بھی تقریب میں موجود تھے لیکن ان کا رویہ ایسا تھا جیسے وہ اپنے سابق سپہ سالار کو پہچانتے بھی نہیں۔

جنرل کیانی ویسے بھی خاموش طبع سپہ سالار تھے، شاید کسی مجبوری میں شادی میں گئے ہوں لیکن شادیوں کے تازہ موسم میں سابق سپہ سالار جنرل باجوہ ایک شادی میں تشریف لے گئے۔ باجوہ صاحب رونقی آدمی ہیں اور اتنی رونق لگا گئے ہیں کہ اڈیالہ جیل سے بھی اُن کا نام سُنائی دیتا ہے اور جس کو اڈیالہ میں ڈالنے کے بعد پرانے لوگ واپس لے کر آئے ہیں وہ بھی انھی کا نام لے کر شکایت کرتے ہیں۔

باجوہ
Getty Images

جس کو حکومت سے نکالا وہ بھی دشمن اور جن کو لے کر آئے وہ بھی دشمن۔

اگر جنرل باجوہ چاہتے تو وہ شادی میں دلہا دلہن کو سلامی دے کر، دور سے اپنے فینز کو ہاتھ ہلا کر گھر واپس جا سکتے تھے لیکن لاہور کی ہر شادی میں ایک ناراض پھپھا کی طرح انھوں نے بزرگ صحافی مجیب الرحمٰن شامی کے کندھے پر ہاتھ رکھا، جیب سے قرآن پاک نکالا اور بتایا کہ نہ میں نے کسی کو باہر بھیجا نہ اندر، نہ میں نے نواز شریف کو مُلک سے نکالا نہ عمران خان کو حکومت سے۔ جو کہتے ہیں کہ میں نے ایکسٹینشن لی تو نہ میں چاہتا تھا نہ میں نے مانگی۔

جیسا کہ شادی پہ شکار ہوئے محترم مجیب الرحمٰن شامی صاحب نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی جیب سے قرآن نکال کے اپنی ماں کی قبر کا حوالہ دے، روزِ قیامت اپنی شفاعت واپس دینے کی بات کرے تو ہم اُس کی بات پر کیا کہہ سکتے ہیں؟

باجوہ
Getty Images

میں بھی تب سے سوچ رہا ہوں کہ ایک خوش باش ریٹائرڈ سپہ سالار شادی میں جاتے ہوئے اپنے ساتھ ایک جیبی قرآن پاک کیوں رکھے گا۔ ہو سکتا ہے اپنی حفاظت کے لیے، خدا کا کلام کو دل کے پاس رکھنے کے لیے یا اس لیے کہ ہو سکتا ہے قسم اُٹھانی پڑ جائے۔ قسم کون اُٹھاتا ہے اور کب اُٹھاتا ہے جب لوگوں کو اُس کی بات پر یقین نہ ہو۔

جنرل باجوہ کو شاید یقین ہے کہ کسی شادی پر ملنے والا کوئی بزرگ صحافی بھی ان کی بات پر یقین نہیں کرے گا جب تک وہ جیب سے قرآن نکال کر قسم نہیں اُٹھائیں گے۔

جتنی دُشنام طرازی جنرل باجوہ پر ہوئی ہے کسی سابق سپہ سالار پر نہیں ہوئی۔ جنرل مشرف مرحوم کا کوئی نام نہیں لیتا، راحیل شریف کہ بغیر ہماری سرحدیں محفوظ نہیں رہ سکتی تھیں۔ ہم نے گزارہ کر لیا، شہید صدر جنرل ضیا الحق کے ذکر کے بغیر کوئی دانشور آپ کو پاکستان کی کہانی سُنا نہیں سکتا ان کو بھی پاکستان کی تاریخ میں ولن بنا کر پیش کیا گیا ہے لیکن اُن کے بارے میں بھی بزرگ صحافی مجیب الرحمٰن کُچھ اچھے الفاظ کہہ دیں گے، لیکن جنرل باجوہ کے حق میں کوئی ان کی اپنی برادری کا چھوٹا باجوہ بھی بولنے کو تیار نہیں ہے۔

جنرل باجوہ کو اگر آئندہ شادی کا کارڈ آئے تو گھر سے سلامی بھجوا دیں۔ اگر تنہائی ستائے تو ضرور جائیں۔ لیکن اس مرتبہ کوٹ کی ایک جیب میں قرآن اور دوسری میں آئینِ پاکستان کی کتاب، کیونکہ اُس کتاب کی بھی انھوں نے قسم کھائی تھی۔

اسی بارے میں


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.