صلح حدیبیہ اور فتح مبین کی الہامی خوشخبری: مکہ اسلام مخالف تحریک کے گڑھ سے اسلام کا مرکز کیسے بنا؟

اسلام کی تاریخ میں ایسے بہت سے اہم واقعات ہیں جو رمضان کے مہینے میں پیش آئے لیکن ان میں سے سب سے اہم واقعہ فتح مکہ کا ہے، جس کے بعد جزیرہ عرب کو متحد ہونے کا موقع ملا اور یوں اسلام کو جزیرہ عرب سے باہر وسعت ملی۔
کعبہ
Getty Images

اسلام کی تاریخ میں ایسے بہت سے اہم واقعات ہیں جو رمضان کے مہینے میں پیش آئے لیکن ان میں سے سب سے اہم واقعہ فتح مکہ کا ہے، جس کے بعد جزیرہ عرب کو متحد ہونے کا موقع ملا اور یوں اسلام کو جزیرہ عرب سے باہر وسعت ملی۔

فتح مکہ نے اسلام کو پھیلانے میں کیسے کردار ادا کیا، اس سے پہلے مکہ کی اس حیثیت کا جائزہ لینا ضروری ہے جو اسے اسلام سے قبل حاصل تھی۔

اسلام سے قبل کا عرب اور مکہ کی حیثیت

مکتہ المکرمہ عرب کا مرکزی شہر اور عالم اسلام کا دینی و روحانی مرکز ہے۔ ہالینڈ کے مشہور مستشرق ڈوزی نے لکھا ہے کہ مکّہ کی تاریخ کا آغاز حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں ہوتا ہے اس کا ذکر تورات اور انجیل میں بھی آیا ہے۔

اس کے بعد جب حضرت ابراہیم علیہ السلام مصر سے فلسطین آئے تو انھیں مکّہ کی طرف جانے کا حکم ہوا اور وہ اپنی اہلیہ حضرت ہاجرہ اور بیٹے حضرت اسماعیل کو لے کر مکہ چلے آئے۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ہی مکّہ میں خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی۔

خانہ کعبہ کی تعمیر اسی قدیم عمارت کی بنیاد پر کی گئی تھی جس کے بارے میں روایت ہے کہ وہ زمین پر بننے والی اوّلین عمارت تھی۔ یہاں صدیوں سے حاجت مند افراد آتے تھے اور منہ مانگی مرادیں پاتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسی عمارت کی بنیادوں پر خانہ کعبہ کی ازسرنو تعمیر کی۔

وادی عرب کے لوگ ہمیشہ سے خود کو العرب یا جزیرہ عرب کے باشندے کہہ کر پکارتے تھے۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ اپنے آپ کو وہ عرب کیوں کہتے تھے۔ حالانکہ ان میں سے زیادہ تر لوگ صحرا کے خانہ بدوش تھے جنھیں بدو کہا جاتا ہے۔

اسلام سے پہلے کے معاشرے میں بدو برادری کے لوگ کئی گروہوں یا ذاتوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ان سب کا اپنا الگ طرز حکمرانی اور رسم و رواج تھے۔

کیمبرج کی تاریخ اسلام کے مطابق اسلام سے قبل یہاں چھوٹی چھوٹی شہری ریاستیں موجود تھیں اور یہ سیاسی اعتبار سے منظم یا متحد خطہ نہ تھا۔

تاہم پیغمبر اسلام کی پیدائش سے پہلے ہی مکہ مکرمہ تجارت کا ایک بڑا مرکز بن چکا تھا اور اسے ایک مرکزی رہنما کی سی حیثیت حاصل ہو چکی تھی۔ کیمبرج کی تاریخ اسلام کے مطابق فارس اور روم کی سلطنتیں طویل جنگوں کے باعث کمزور ہو رہی تھیں تو مکہ طاقتور ہو رہا تھا۔

مکہ کی ایک اور اہمیت بیت اللہ کے باعث بھی تھی۔ قریش کے تجارتی قافلے یمن سے شام تک جایا کرتے تھے اور مختلف ممالک کی مشہور چیزیں لا کر مکّہ میں فروخت کیا کرتے تھے۔ یہاں ہر سال ایک بڑا میلہ لگتا تھا، جس میں اشیائے ضرورت کے علاوہ غلاموں کی تجارت بھی ہوتی تھی۔

کیمبرج کی تاریخ اسلام کے مطابق مکہ کی اہمیت ہر سال اس وقت نمایاں ہوتی تھی جب مقدس سمجھے جانے والے مہینوں میں لوگ یہاں اُمڈ آتے۔

اہل مکہ کی مہمان نوازی مشہور تھی اور وہ اپنے مہمانوں کو بیت اللہ کا مہمان سمجھ کر ان کی ہر ممکن خدمت کیا کرتے تھے، مہمان بھی اہل مکہ کی تعظیم و تکریم کرتے تھے۔

فتح مکہ سے پہلے کے واقعات اور حدیبیہ

مدینہ ہجرت کے بعد اہل مکہ نے مسلمانوں کے خلاف تین جنگیں لڑیں اور مورخین کے مطابق اسلام مخالف تحریک کا مرکز بھی مکہ اور اہل قریش ہی تھے۔

ایسے میں یکم ذی القعد سن 6 ہجری کو پیغمبر اسلام صحابہ کے ایک گروہ کے ساتھ خانہ کعبہ کی زیارت اور عمرہ کے لیے احرام باندھ کر روانہ ہوئے۔ عربوں کی روایت تھی کہ جب کوئی شخص احرام باندھ کر مکہ مکرمہ آتا تو اسے روکا نہیں جاتا اور یہ دستور صدیوں سے رائج تھا۔

مکہ سے 9 میل پہلے حدیبیہ کا مقام ہے جہاں پہنچ کر پیغمبر اسلام نے قریش مکہ کو پیغام بھیجوایا کہ ہماری آمد کا مقصد زیارت بیت اللہ ہے، ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے۔

یہ خبر سن کر اہل قریش نے عروہ بن مسعود کو مسلمانوں کی طرف بھیجا تا کہ عمرے کے ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کی جائے لیکن عروہ بن مسعود کو ناکامی ہوئی۔

بعد میں حضرت عثمان بن عفان کو رئیسان مکہ سے مذاکرات کے لیے روانہ کیا گیا لیکن پہلے ان کو قید کرنے اور پھر ہلاک کرنے کی افواہ پھیلی تو پیغمبر اسلام نے صحابہ کرام سے بدلہ لینے کی بیعت لی اور یہ بیعت، بیعت رضوان کے نام سے معروف ہے۔

اس بیعت کی اطلاع قریش تک پہنچی تو انھوں نے اطلاع بھجوائی کہ حضرت عثمان زندہ و سلامت ہیں اور وہ مسلمانوں سے وعدہ کرتے ہیں کہ وہ اس سال واپس چلے جائیں اور آئندہ سال واپس آ کر خانہ کعبہ کی زیارت اور عمرہ کریں۔

اہل قریش نے وعدہ کیا کہ مکہ کو تین دن کے لیے خالی کر دیا جائے گا تا کہ کسی تصادم کا اندیشہ نہ رہے۔ ان تجاویز کو تحریری شکل دی گئی جن میں چند اور شرائط بھی شامل تھیں اور اسے معاہدہ حدیبیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس معاہدے کی بعض شقیں بظاہر مسلمانوں کے خلاف تھیں تاہم قرآن میں اس معاہدے کو فتح مبین قرار دیا گیا۔

فتح مکہ

معاہدہ حدیبیہ کو بمشکل ایک ہی سال گزرا تھا کہ بعض ایسے واقعات پیش آئے جس کے نتیجے میں قریش نے معاہدہ حدیبیہ کو توڑنے کا اعلان کر دیا۔ 10 رمضان سن 8 ہجری کو پیغمبر اسلام اپنے صحابہ کے ساتھ مکے کے لیے روانہ ہوئے تو مدینے سے نکلتے وقت ان کی تعداد 7 ہزار کے لگ بھگ تھی۔ اس لشکر میں دوران سفر بعض دیگر قبائل کے افراد بھی شامل ہوتے گئے اور یوں یہ تعداد 10 ہزار تک پہنچ گئی۔

مسلمانوں کا لشکر مکے کے قریب پہنچا تو اس نے مکے سے 10 میل پہلے ایک مقام پر قیام کیا۔ قریش مکہ کو جب اس عظیم لشکر کی آمد کی اطلاع ہوئی تو ان کا سردار ابوسفیان پیغمبر اسلام کی خدمت میں پہنچا اور اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔

مسلمان چار سمتوں سے مکے میں داخل ہوئے اور یوں اہل مکہ کے فرار کا راستہ مسدود کر دیا گیا۔

کچھ لوگوں نے مزاحمت کرنا چاہی جس میں 33 یا 34 افراد ہلاک ہوئے۔ 20 رمضان مطابق 11 جنوری 630 ہجری کو پیغمبر اسلام خانہ کعبہ پہنچ گئے جہاں انھوں نے اہل مکہ سے خطاب میں کہا کہ ’تم سب کے سب آزاد ہو، آج تم پر کوئی بازپرس نہیں، اللہ تعالیٰ بھی تم کو معاف فرمائے، وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔‘

سورہ فتح میں جس صلح حدیبیہ کو فتح مبین قرار دیا گیا تھا اس کی تعبیر مل چکی تھی۔

فتح مکہ نے اسلام کے پھیلاؤ کو کیسے ممکن بنایا؟

دائرہ معارف اسلامیہ نے لکھا ہے کہ فتح مکہ کے بعد لوگوں کے دلوں سے قریش کی ہیبت جاتی رہی۔ جب خود قریش نے اسلام کے سامنے سرتسلیم خم کردیا تو عربوں کی بڑی بڑی جماعتیں اور قبیلوں کے قبیلے مسلمان ہونے لگے۔

کیمبرج کی تاریخ اسلام کے مطابق فتح مکہ اور اس کے بعد حنین کی فتح کا مطلب یہ تھا کہ اب کوئیایسا مضبوط قبیلہ نہیں بچا تھا جو مسلمانوں کی مخالفت کر سکتا اور یوں پیغمبر اسلام کو خطے کے سب سے طاقتور رہنما ہونے کا اعزاز ملا۔ کیمبرج کی تاریخ اسلام کے مطابق عرب لوگ طاقت کو سراہتے تھے اور یوں جوق در جوق وہ اسلام کے دائرہ میں داخل ہونے لگے۔

یوں فتح مکہ نے عرب خطے کو ایک ایسا رہنما دیا جس کی قیادت کی بنیاد قبائلی وفاداری یا معاشرتی حیثیت نہیں بلکہ صرف مذہبی تھی اور آپسی لڑائیوں میں مصروف رہنے والے عرب جنگجو ایک رہنما اور ایک مذہب کے نیچے متحد ہو گئے جو ایک دوسرے کے مخالف تھے۔

کیمبرج کی تاریخ اسلام کے مطابق یوں ایک ایسی قوم بن گئی جس کے اراکین کو بہت عرصہ کے بعد امن میسر ہوا جبکہ دوسری جانب فارس اور روم کی مضبوط سلطنتیں کمزور ہو چکی تھیں۔

کتاب میں لکھا ہے کہ عرب جنگجوؤں کی توانائیوں کو جزیرہ عرب کا امن خراب کرنے سے روکنے کے لیے فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا، جس نے ایک متحد عرب لشکر کو اسلام کو وسعت دینے میں مدد دی۔

کیمبرج کی تاریخ اسلام میں لکھا گیا ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ فتح مکہ سے بہت قبل ہی پیغمبر اسلام نے یہ اندازہ لگا لیا ہو گا کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب جزیرہ عرب میں بہت کم غیر مسلمان رہ جائیں گے اور ایسے میں اسلام کو جزیرہ عرب سے نکل کر عراق اور شام کا رخ کرنا ہو گا، جس کے لیے وسیع پیمانے کے انتظامات درکار ہوں گے اور اس کے لیے انتظامی صلاحیت رکھنے والے افراد کی ضرورت ہو گی۔

کیمبرج کی تاریخ اسلام کے مطابق ایسے افراد مکہ ہی میں موجود تھے جنھیں بڑے پیمانے پر طویل سفر کرنے والے تجارتی قافلوں کے انتظامات کرنے کا ہنر اور تجربہ حاصل تھا۔

کیمبرج کے مطابق نوزائیدہ اسلامی مملکت کے پھیلاؤ کو ممکن بنانے والے بیشتر جنرل اور منتظمین کا تعلق حجاز کے تین ہی شہروں سے تھا جن میں مکہ، مدینہ اور طائف شامل تھے۔

یوں فتح مکہ کے بعد ان نومسلموں اور ان کی اولادوں میں بہت سے مدبر، مجاہد، سپہ سالار اور عالم دین ہوئے جنھوں نے اسلام کی تعلیمات کو چاروں اطراف میں پھیلایا اوراسلام کا جھنڈا ایران، عراق، شام اور افریقہ پر لہرانے لگا۔

پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد مدینے کی دارالخلافہ کی حیثیت برقرار رہی مگر حج کی وجہ سے مکے کی دینی و روحانی اور علمی مرکزیت قائم رہی۔ بنوامیہ کے دور میں اسلامی دنیا کا مرکز مدینے سے دمشق منتقل ہوگیا لیکن اس کے باوجود مکے اور مدینے کی مرکزی حیثیت اپنی جگہ برقرار رہی جہاں دور دراز علاقوں سے لوگ اپنی روحانی اور علمی پیاس بجھانے آتے تھے۔

مکے کی مرکزی اور روحانی حیثیت آج بھی برقرار ہے اور آج بھی دنیا کا ہر مسلمان خانہ کعبہ کا رخ کرکے نماز پڑھتا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.