شہریار خان کی وفات: بھوپال کی شہزادی عابدہ سلطان کے بیٹے کا شاہی محل سے ملیر تک کا سفر

سابق سیکریٹری خارجہ اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان 89 برس کی عمر میں سنیچر کو وفات پا گئے ہیں۔ وہ 29 مارچ 1934 کو بھوپال کے ’قصر سلطانی پیلس‘ میں پیدا ہوئے۔ شہریار خان کا بھوپال کے شاہی محل سے کراچی کے ملیر کے بنا بجلی کے گھر تک کے سفر اور پھر سفارتکاری سے لے کر کرکٹ سفارتکاری تک کے احوال۔
شہریار خان
AFP

سابق سیکریٹری خارجہ اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین شہریار خان 89 برس کی عمر میں سنیچر کو وفات پا گئے ہیں۔ وہ 29 مارچ 1934 کو بھوپال کے ’قصر سلطانی پیلس‘ میں پیدا ہوئے۔

شہریار خان ریاست کوروائی کے نواب محمد سرور علی خان کے فرزند اور ریاست بھوپال کے نواب حمیداللہ کے نواسے تھے۔

شہریار خان انڈین فلم سٹار سیف علی خان کے والد منصور علی خان پٹودی کے خالہ زاد بھائی تھے۔

شہریار خان کے کریئر کو ان کی والدہ سے ہٹ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔شہریار خان کے احوال زندگی پر نظر دوڑانے سے قبل ان کی والدہ اور ان کے بھوپال کی پرتعیش زندگی چھوڑ کر پاکستان آنے کے فیصلے کی وجوہات جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

شہریار خان کا پاکستان کا سفر

شہریار خان کے خاندان کے انڈیا سے پاکستان منتقل ہونے سے متعلق محقق عقیل عباس جعفر نے بی بی سی پر تفصیل سے لکھا ہے۔ اپنی والدہ کے ساتھ پاکستان کے سفر سے متعلق اپنی زندگی میں خود شہریار نے بھی تفصیلات بتائیں تھی جو یہاں درج کی جا رہی ہیں۔

سنہ 1948 میں انڈیا کی ریاست بھوپال کی وارث نے بانی پاکستان محمد علی جناح کو آگاہ کیا کہ وہ اپنے تخت کی طرف لوٹنے کے بجائے پاکستان آنا چاہتی ہیں۔

جناح یہ سُن کر پھولے نہ سمائے اور کہا ’آخرکار! اب ہمارے پاس مسز پنڈت کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی تو ہو گا۔‘ مسز پنڈت جواہر لعل نہرو کی بہن تھیں اور اس وقت اقوامِ متحدہ میں انڈیا کی نمائندگی کر رہی تھیں۔

یہ شخصیت شہزادی گوہر تاج، بیا حضور عابدہ سلطان تھیں۔

اُن کے اکلوتے فرزند شہریار محمد خان یاد کے مطابق جب ان کی والدہ پاکستانی سفارتخانے سے اپنا پاسپورٹ لینے پہنچیں تو انھیں خبر ملی کہ جناح کی وفات ہو گئی ہے۔ ’اس سے خاصی تاخیر پیدا ہوئی اور آخر میں وہ محض دو سوٹ کیسوں کے ساتھ پاکستان آ گئیں۔‘

تو ہندوستان کی دو ریاستوں کی وارث اور شاہی خاندانوں میں پلی بڑھی اس شہزادی نے پاکستان کی خاطر اپنی یہ وراثت چھوڑ کر کراچی آنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں بیا حضور کی زندگی پر ایک نظر ڈالنی ہو گی۔

شہزادی عابدہ سلطان نے اپنے حالات زندگی اپنی آپ بیتی ’عابدہ سلطان: ایک انقلابی شہزادی کی خودنوشت‘ میں تفصیل سے رقم کیے ہیں جس کے مطابق وہ 28 اگست 1913 کو بھوپال کے قصرِ سلطانی میں پیدا ہوئیں۔

شہزادی عابدہ سلطان کے مطابق اُن کی تربیت نواب سلطان جہاں بیگم نے خود اپنی نگرانی میں کی۔ انھوں نے عابدہ سلطان کے لیے ’نور الصباح‘ کے نام سے ایک محل تعمیر کروایا اور انھیں امور مملکت کے ساتھ ساتھ گھڑ سواری، نشانہ بازی اور مختلف کھیلوں کے تربیت دی۔ وہ عابدہ سلطان کی مذہبی تعلیم سے غافل نہیں رہیں اور انھیں قرآن پڑھانے کے لیے ایک عرب عالم دین شیخ محمد عرب کی خدمات حاصل کیں۔

شہریار خان نے اپنی زندگی میں یہ بات بی بی سی کو بتائی تھی کہ ’سرکار اماں میری والدہ کی تربیت ایک مثالی مسلم عورت کے طرز پر کرنا چاہتی تھیں۔ وہ میری والدہ کو روز صبح چار بجے قرآن کی تلاوت کے لیے جگا دیتیں۔ تلفظ اور یادداشت کی ہر غلطی پر انھیں مار بھی پڑتی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ چھ برس کی عمر میں انھوں نے قرآن حفظ کر لیا تھا۔‘

شہریار خان کے مطابق اگرچہ سرکار اماں شہزادی عابدہ سے بہت پیار کرتی تھیں لیکن وہ اپنی شفقت کا برملا اظہار کم ہی کرتی تھیں۔ ’جس دن انھوں نے حفظِ قرآن مکمل حفظ کیا، انھیں ایک دن کی تعطیل عطا کی گئی اور سرکار اماں نے انھیں بوسہ دیا۔ میری والدہ کہتی تھیں کہ ان کی یادداشت میں یہ پہلا موقع تھا جب کسی نے انھیں پیار سے چوما ہو کیونکہ ان کے خاندان میں شفقت کا اظہار شاز و نادر ہی کیا جاتا تھا۔‘

کھلاڑی، شکاری، پائلٹ

شہریار خان کی والدہ عابدہ سلطان خود کھیلوں سے محبت رکھتی تھیں اور وہ ایک اچھی پائلٹ ہونے کے ساتھ ساتھ اچھی کھلاڑی بھی تھیں۔ گھڑ سواری کا شوق ہی انھیں پولو کے میدان تک لے گیا۔

لندن میں قیام کے دوران شہزادی عابدہ سلطان ساؤتھ کینزنگٹن میں گریمپیئنز سکواش کورٹ میں عظیم کھلاڑی ہاشم خان کے رشتہ داروں ولی خان اور بہادر خان کے ساتھ کھیلا کرتیں۔

شہریار خان نے بی بی سی کو اپنی والدہ سے متعلق بتایا تھا کہ ان کی والدہ نے سنہ 1949 میں آل انڈیا ومنز سکواش چیمپیئن کا اعزاز جیتا۔

’ہاکی کے میدان میں بھی وہ چیمپیئنز کے ہمراہ اُتریں۔‘ انھیں شکار بھی پسند تھا۔ ان کے والد نواب حمیداللہ خان انھیں شیر اور تیندوے کے شکار پر ساتھ لے جاتے۔

شہریار خان کی والدہ نے بھوپال چھوڑ کر پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔ ان کے اس فیصلے کی بڑی وجہ انڈیا میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والا سلوک بنا۔

اس زمانے میں شاہی گھرانوں کی خواتین سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ بچپن سے ہی گھڑ سواری میں مہارت حاصل کریں۔ شہریار خان بتاتے ہیں کہ جب شہزادی عابدہ گود میں تھیں تو انھیں اور اُن کی بہنوں کو ٹوکریوں میں لٹا کر گھوڑوں کے اوپر باندھ دیا جاتا اور باغ کے چکر لگوائے جاتے۔ جب وہ بیٹھنے کے قابل ہو گئیں تو انھیں ’بکٹ چیئر‘ پر بٹھا کر گھوڑے سے باندھ دیا جاتا۔

شہریار خان کے بقول: ’چھوٹی عمر سے ہی میری والدہ کو سکھایا گیا تھا کہ ہر پٹھان کو اچھا نشانہ باز بھی ہونا چاہیے اور شاید ہی کوئی ایسا وقت ہو کہ ان کے پاس اپنی کوئی بندوق نہ رہی ہو۔ بچپن میں ان کے پاس ایک کھلونا رائفل تھی جس سے وہ مکھیاں مارتیں۔ پھر جب بڑی ہوئیں تو پرندوں کا شکار کرنے کے لیے ایئر گن استعمال کرنے لگیں۔ اس سے قبل کہ میری والدہ اور ان کی بہنوں کو اصل رائفل استعمال کرنے کی اجازت ملتی، انھیں نشانہ بازی کی فوجی مشقیں کروائی گئیں۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر شوٹنگ رینج پر مشق کرتی تھیں۔‘

شہریار خان
Getty Images

چار فروری 1960 کو نواب حمید اللہ خان بھوپال میں وفات پا گئے۔ اس وقت عابدہ سلطان بھوپال میں ہی موجود تھیں۔ انھیں پیشکش کی گئی کہ اگر وہ پاکستان کی شہریت ترک کر دیں اور ہندوستان واپس آ جائیں تو انھیں بھوپال کا نواب بنایا جا سکتا ہے۔

پاکستان کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے بھی شہزادی عابدہ سلطان کو یہی مشورہ دیا کہ وہ بھوپال میں رہائش اختیار کر لیں مگر شہزادی عابدہ سلطان اپنی چھوٹی بہن ساجدہ کے حق میں دستبردار ہو گئیں۔ ساجدہ سلطان کی شادی مشہور کرکٹر نواب افتخار علی خان آف پٹودی سے ہوئی تھی۔ وہ نواب منصور علی خان عرف ٹائیگر پٹودی کی والدہ اور اداکار سیف علی خان کی دادی تھیں۔

سنہ 1964 میں جب پاکستان میں صدارتی انتخابات کا ڈول ڈالا گیا تو شہزادی عابدہ سلطان نے جو ہمیشہ سیاست سے دور دور رہی تھیں، کونسل مسلم لیگ کی دو آنے والی رکنیت اختیار کی اور وہی تھیں جن کی کوششوں سے فاطمہ جناح متحدہ اپوزیشن کی نمائندہ کے طور پر ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخاب لڑنے پر آمادہ ہوئیں۔

شہزادی عابدہ سلطان نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ فاطمہ جناح ایک معمولی اکثریت سے صدارتی انتخاب جیت گئی تھیں مگر ان کی اس فتح کو شکست میں تبدیل کر دیا گیا۔

شہزادی نے اپنی وراثت کیوں چھوڑی؟

ہندوستان میں ریاستیں ختم ہو گئیں اور نواب بھوپال کا عہدہ ایک علامتی عہدہ بن گیا البتہ انھیں ماہانہ بنیادوں پر ایک معقول رقم ملتی رہی۔ شہزادی عابدہ نے اس سے پہلے ہی اپنے بیٹے شہریار کو بٹوارے میں ہونے والے خون خرابے سے بچانے کے لیے انگلینڈ میں نورتھ ہیمپٹن شائر کے مشہور اونڈل بورڈنگ سکول میں داخل کروا دیا تھا۔

اس سوال پر کہ وہ بھوپال میں اپنا رتبہ چھوڑ کر پاکستان کیوں آئیں، شہریار خان بتاتے ہیں کہ وہاں مسلمانوں کے خلاف بڑھتے تعصب سے انھیں بہت دکھ پہنچا۔

’وہ ایک خوفناک واقعہ سناتی تھیں جب مسلم پناہ گزینوں کی ایک ٹرین کسی اور ریاست سے بھوپال پہنچی۔ وہ ان پناہ گزینوں کا استقبال کرنے پلیٹ فارم پر موجود تھیں۔ جب ٹرین کا دروازہ کھلا تو اندر کوئی زندہ نہیں بچا تھا۔ وہ اکثر کہتی تھیں کہ وہ منظر ان کی زنگی کا سب سے دلخراش باب تھا۔ اس واقعے کا ان کے پاکستان آنے کے فیصلے میں ایک کلیدی کردار تھا۔‘

شہزادی عابدہ کو اپنے اکلوتے بیٹے کی بھی فکر تھی۔ شہریار بتاتے ہیں: ’انھیں محسوس ہوا کہ انڈیا میں میرا مستقبل برباد ہو جائے گا اور مجھے اپنے شعبے میں کبھی آگے بڑھنے کا موقع نہیں ملے گا۔ وہ اس عیش و آرام کی زندگی کے بھی خلاف تھیں جو بھوپال سمیت کئی ریاستوں کے نوابوں کا خاصا بن گئی تھی۔ وہ مجھے اس سب سے دور رکھنا چاہتی تھیں۔‘

شہزادی خود دو اکتوبر 1950 کو کراچی آ گئیں جہاں انھوں نے ملیر میں سکونت اختیار کی اور بہاولپور ہاؤس کے سامنے اپنی قیام گاہ تعمیر کروائی۔ ملیر کا علاقہ انھیں بہت پسند تھا اور وہ اپنے اس گھر میں 50 سال سے زیادہ قیام پذیر رہیں۔ ان کی یہیں وفات ہوئی اور وہ یہیں آسودۂ خاک ہیں۔

شہریار خان نے بتایا تھا کہ وہ سنہ 1951 میں جب پاکستان آئے تو ملیر والا گھر نیا نیا تعمیر ہوا تھا۔ ’میری والدہ نے وہ گھر اپنی جمع پونجی سے تیار کروایا اور حکومت سے ان کو کچھ نہیں ملا۔ آٹھ برس تک وہاں بجلی تک نہیں تھی۔‘

کرکٹ سفارتکاری

شہریار خان کا شمار پاکستان کی تاریخ کے تجربہ کار سفارت کاروں میں ہوتا تھا۔ وہ فرانس، اردن اور برطانیہ میں سفیر اور وہ 1990 سے 1994 تک پاکستان کے سیکریٹری خارجہ کے عہدے پر بھی فائز رہے تھے۔

انھوں نے روانڈا میں اقوام متحدہ کے انڈر سیکریٹری کی خدمات بھی انجام دیں۔

شہریار خان نے چھ کتابیں تحریر کی ہیں، جن میں ’بھوپال کی بیگمات،‘ ’دی شالو گریوز آف روانڈا،‘’کرکٹ اے برج آف پیس۔‘ ’میموآئرز آف ریبل پرنسز،‘ ’کرکٹ کالڈرون‘ اور ’شیڈوز آکراس پلیئنگ فیلڈز‘ شامل ہیں۔

انھوں نے لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) میں پاکستان کی خارجہ پالیسی بھی پڑھائی۔

شہریار خان لڑکپن میں ہی لندن چلے گئے اور پھر کرکٹ ان کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا۔ وہ تعلیم اور سفارتکاری کے ساتھ کرکٹ بھی کیھلتے رہے مگر پھر سفاتکار ہونے کی وجہ سے فرسٹ کلاس کرکٹ میں بلا نہ چلا سکے۔

شہریار خان سنہ 2003 سے سنہ 2006 تک پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رہے تھے تاہم اس وقت وہ اپنے عہدے کی مدت پوری نہیں کرسکے تھے اور انھیں اوول ٹیسٹ کے تنازعے کی وجہ سے اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔

انھوں نے 18 اگست 2014 کو دوسری مرتبہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالا اورپھر سنہ 2017 میں اس منصب سے سبکدوش ہو گئے۔

شہریارخان نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے اپنے دونوں ادوار میں کئی اہم اقدامات کیے۔ تاہم ان کا پہلا دور کئی اعتبار سے کامیاب رہا جن میں ان کی سب سے اہم کامیابی 2004 میں پاک انڈیا کرکٹ روابط کی بحالی تھی۔

انڈین کرکٹ بورڈ کے سابق صدور راج سنگھ ڈونگرپور اور جگ موہن ڈالمیا پاک انڈیا کرکٹ تعلقات کے ضمن میں شہریارخان کی مدبرانہ صلاحیتوں کے زبردست معترف تھے۔

شہریارخان نے اپنے دوسرے دور میں بھی پاک انڈیا کرکٹ روابط کی بحالی کے لیے ہر ممکن کوشش کی لیکن انڈین کرکٹ بورڈ نے اپنی حکومت کی طرف سے کھیلنے کی اجازت نہ دینے کا جواز پیش کرتے ہوئے ان کی اس کوشش کوکامیاب نہیں ہونے دیا۔

شہریارخان نے انٹرنیشنل کرکٹ کی پاکستان میں واپسی کے سلسلے میں بھی بہت کوشش کی لیکن ملک میں دہشت گردی کے واقعات ان کی کوششوں کی راہ میں آتے رہے اور سوائے زمبابوے کے کوئی دوسری ٹیم پاکستان آکر کھیلنے کے لیے تیار نہ ہوسکی۔

شہریار
Getty Images

بگ تھری کی مخالفت

شہر یارخان کی ایک اور قابل ذکر کامیابی ’بِگ تھری‘ کا خاتمہ ہے۔ جب انھوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالا تو اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ بگ تھری کی حمایت کرچکا تھا لیکن شہریارخان نے اسے پاکستانی کرکٹ کے مفادات کے منافی خیال کرتے ہوئے اس کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

شہریارخان اپنے پہلے دور میں باب وولمر اور دوسرے دور میں مکی آرتھر کی شکل میں غیرملکی کوچز پاکستان لائے۔

شہریارخان اپنے پہلے دور میں فیصلے کرنے کے سلسلے میں مکمل خود مختار اور آزاد رہے تاہم دوسرے دور میں انھیں بعض معاملات پر پاکستان کرکٹ بورڈ کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی سے اختلاف رائے کا سامنا رہا۔

شہریارخان نجم سیٹھی ہی کی جگہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اس وقت منتحب ہوئے تھے جب نجم سیٹھی اور ذکا اشرف کے درمیان چیئرمین شپ کے حصول کی عدالتی جنگ جاری تھی۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.