ماں ہماری زندگی کا سب سے ضروری اور اہ رشتہ ہے جس کے بناء زندگی ادھوری ہے۔ ہمیں ہر موڑ پر اگر کامیابی کی جانب بڑھنے کا کوئی راستہ یا ذریعہ دکھاتی ہے تو وہ ماں ہی ہے۔ ماں جس قدر اولاد کے لئے دکھ درد تکلیف اور پریشانیاں اٹھاتی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ لیکن جب ماں بیمار پڑ جائے تو اولاد کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں کہ کیسے ماں کو صحت مند بنائیں۔
ایسی ہی کہانی بھارتی نوجوان کی ہے جس کی ماں 3 ماہ بخار اور پیٹ درد کی تکلیف میں مبتلا رہی لیکن جب کسی اچھے ڈاکٹر سے رابطہ کیا اور ٹیسٹ کروائے تو معلوم ہوا کہ خاتون کے گردے بالکل ناکارہ ہو چکے ہیں اور اب گردوں کا ٹرانسپلانٹ کرنا لازمی ہے ورنہ کسی بھی وقت موت واقع ہو سکتی ہے۔ ٹیسٹ کی رپورٹ میں ایک اور عجیب بات سامنے آئی اور وہ یہ کہ ان کے گردے بچپن سے ہی زیادہ فعال نہیں تھے لیکن کبھی انہوں نے اس پر زور نہ دیا۔
جب پنیر کو والدہ کی طبیعت کا معلوم ہوا تو اس نے بناء کچھ سوچے سمجھے اپنا گردہ دینے کی حامی بھرلی اور ڈاکٹر سے رجوع کیا۔ ڈاکٹر نے پنیر کو بتایا کہ اس میں ہم گارنٹی نہیں لے سکتے کہ کسی ایک کی جان کا بچنا ممکن ہوگا یا دونوں کی کیونکہ خاتون کی عمر 50 سال سے زائد ہے۔ ایسے میں پنیر نے فوری ہاں کرتے ہوئے ماں کو اپنا گردہ ٹرانسپلانٹ کردیا۔
پنیر کے اس قدم سے اس کی ماں کی جان تو بچ گئی مگر وہ خود زندگی بھر کے لئے بلڈپریشر کا مریض بن گیا کیونکہ ان کے کیس میں کئی پیچیدگیاں تھیں۔ جب بھارت میں ان کی یہ کہانی مشہور ہوئی تو لوگوں نے پنیر کو خوب داد دی اور کچھ نجی اداروں نے پنیر کے نام سے ایک ٹرسٹ بھی بنا رکھا ہے جس سے غریب لوگوں کے گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن کا کام آسان کروایا جاتا ہے۔