جن بیٹیوں کو ساری عمر پالا انہوں نے ہی بے گھر کر ڈالا ، ایک ماں کی دل دکھا دینے والی داستان

image

ایک ماں دس بچوں کو پال سکتی ہے مگر دس بچے مل کر ایک ماں کو نہیں رکھ سکتے اس جملے کو سنتے ہی انسان کے ذہن میں بیٹوں کا خیال آتا ہے جو اپنی بیوی کے بہکاوے میں آکر اکثر اپنی ماں کو گھر سے نکال دیتے ہیں یا برا سلوک کرتے ہیں مگر بیٹیوں کے معاملے میں بات اور ہوتی ہے اور سب کا یہ ماننا ہوتا ہے کہ بیٹیوں کا دل ماں باپ سے جڑا ہوتا ہے.

بیٹیوں کے ظلم کی کہانی

مگر جیسے جیسے زمانہ بدل رہا ہے اسی طرح اب بیٹیاں بھی بعض اوقات ایسے ظلم کر گزرتی ہیں کہ جن کے بارے میں جان کر انسان بے ساختہ توبہ توبہ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے یہ کہانی سوشل میڈیا پر ہیومن آف بمبئي کی ویب سائٹ پر شائع کی گئي ہے یہ کہانی ایک خاتوں کی آپ بیتی ہے جواس وقت بمبئي کے اولڈ ایچ ہوم میں اپنی آخری عمر کے دن کاٹ رہی ہے .

اس عورت کا یہ کہنا تھا کہ اس کی شادی عمار نامی شخص سے ہوئی تھی وہ ایک سفید پوش گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔ پے در پے دو بیٹیوں کی پیدائش کے بعد جیسا کہ ان کی معاشرت کا حصہ ہے انہوں نے اپنی ساری زندگی ان بیٹیوں کے نام کر دی اور ان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ جہیز کی تیاری بھی شروع کردی اور اس کے لیۓ اپنی خواہشات کو مار کر دن رات ان کے جہیز کے لیۓ چیزیں جوڑنا شروع کر دیں تاکہ جلد از جلد اپنے فرض سے ادا ہو سکیں .

زندگی کا واحد مقصد بیٹیوں کو اپنے گھر کا کرنا

دونوں میاں بیوی نے جب بیٹیوں کی شادی کر دی تو اکیلے رہ گۓ مگر کسی پر بوجھ بننے کے بجاۓ دونوں نے اپنی تنہا زندگی کو ایک نۓ سرے سے گزارنے کا تہیہ کیا اور کسی پر بوجھ بننے کے بجاۓ عمار نے کلکتہ میں بطوراکاونٹنٹ ایک کمپنی میں نوکری اختیار کر لی جب کہ ان کی بیوی جس نے ویب سائٹ پر اپنا نام ظاہر نہیں کیا کسی گھر میں آیا کے طور پر کام کرنے لگیں . ان دونوں میاں بیوی نے ایک چھوٹا سا گھر بھی کراۓ پر لے لیا تاکہ اپنی گزر بسر آرام سے کر سکیں ان کی بیٹیاں بھی ان سے ملنے اکثر و بیشتر آتی رہتی تھیں جن کی مہمانداری دونوں اپنی بساط کے مطابق کرتے راوی زندگی میں چین ہی چین لکھ رہا تھا اور دونوں اپنی زندگی سے بہت خوش تھے .

ایک حادثے نے زندگی بدل ڈالی

مگر ان کی ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئي اور سال 2020 میں اچانک ان کو اطلاع ملی کہ عمار کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور اس ایکسیڈنٹ کی وجہ سے ان کے پیروں کی ہڈیاں تین جگہ سے ٹوٹ گئی ہیں جس کی وجہ سے عمار کو ہفتوں ہسپتال میں گزارنے پڑے صحت یابی کے بعد جب عمار اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل ہوۓ تو وہ دوبارہ نوکری کے لیے گۓ مگر وہاں جاکر ان کو پتہ چلا کہ ان کی نوکری ختم ہو چکی ہے اور اب اس کمپنی میں ان کے لیۓ کوئی جگہ موجود نہیں ہے .

اسی دوران کرونا وائرس کے سبب ملک بھر میں لاک ڈاون نے پنجے گاڑ لیۓ اور کسی دوسری نوکری کے امکانات بھی نہیں تھے اس جوڑے کی ساری جمع پونجی عمار کے علاج پر خرچ ہو چکی تھی اس وقت میں ان کے لیۓ امید کی واحد کرن ان کی بیٹیاں ہی تھیں .

بڑی بیٹی سے رابطہ

اس وقت میں انہوں نے اپنی بڑی بیٹی کو مدد کے لیۓ پکارا اور اس سے درخواست کی کہ وہ اس کے گھر آکر رہنا چاہتے ہیں اور دونوں اس کے گھر چلے گۓ مگر بیٹی کے رویۓ نے ان کو بہت کچھ سمجھا دیا اب چیزیں تبدیل ہو چکی تھیں وہ دونوں اس بیٹی کے لیۓ بوجھ بن گۓ تھے یہاں تک کہ وہ کھانا بھی ان کو بہت ہی بد تمیزی سے دیتی تھی اور اس کا بات کرنے انداز بھی بہت سخت اور روکھا ہوتا تھا جو ان دونوں کو رونےپر مجبور کر دیتا تھا یہاں تک کہ ایک دن ان کی بیٹی نے ان سے کھلے لفظوں میں کہہ دیا کہ وہ اپنا بندوبست کہیں اور کر لیں کیوں کہ وہ چھوٹا گھر لے رہی ہے اور بات یہیں تک نہ رکی بلکہ ان کے نواسے نےبھی ان کے ساتھ بہت بدتمیزی کی جگہ تو دل میں ہوتی ہے جب دل میں ہی جگہ نہ ہو تو گھر تو چھوٹے پڑ ہی جاتے ہیں

یہی سوچ کر وہ اکیلے کچھ دنوں کے لیۓ کلکتہ چلی گئيں تاکہ وہاں ان کے جو بقایا جات ہیں لے کر آئيں اور سر چھپانے کے لیۓ کسی جگہ کا بندوبست کر سکیں اسی دوران ایک دن بیٹی نے ان کو فون کر کے بتایا کہ ابو کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو اس نے بیٹی کو کہا کہ وہ جلد ٹھیک ہو جائيں گے تب تک وہ بھی کچھ بندوبست کر کے واپس آجاۓ گی مگر اگلے فون پر ان کی بیٹی نے ان کو یہ اطلاع دی کہ بابا کا انتقال ہو گیا ہے اور ان کی آخری رسومات آج ہی ادا کر دی جائيں گی انہوں نے اس سے درخواست کی کہ اتنا صبر کر لیں کہ وہ آکر آخری بار ان کا چہرہ دیکھ سکیں اور یہ کہہ کر انہوں نے فورا واپسی کی تیاری شروع کر دی مگر تمام تر کوشش کے باوجود ان کو پہنچنے میں ایک دن لگ گیا مگر جب وہ پہنچیں تو وہ اپنے باپ کی چتا کو آگ لگا چکی تھیں اور انہوں نے اس بات کا بھی انتظار نہیں کیا کہ ان کی ماں اپنے اس ہمسفر کو الوداع کہنے کے لیۓ اس کا چہرہ آخری بار دیکھ سکیں ابھی وہ جی بھر کے سوگ بھی نہ منا پائی تھیں کہ ان کی بیٹی نے ان سے گھر خالی کرنے کا کہہ دیا اور نواسے نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ آپ جا رہی ہیں یا آپ کو اٹھا کر باہر پھینک دیں .

چھوٹی بیٹی کا جواب

انہوں نے اس موقع پر اپنی چھوٹی بیٹی سے کچھ دن تک سر چھپانے کے لیۓ مدد مانگی مگر اس نے بھی بڑی بہن کے نقش قدم پر پیر رکھتے ہوۓ ان کی کسی بھی قسم کی مدد کرنے سے انکار کر دیا .

اپنوں سے بھلے غیر

اس موقع پر جب وہ اپنے مختصر سے سامان کے ساتھ گھر سے باہر آئيں تو اوپر آسمان اور نیچے زمین پر ان کا کوئی بھی سہارہ نہیں بچا تھا اس موقع پر ایک اجنبی عورت نے ان کی حالت کو دیکھتے ہوۓ کچھ گھنٹوں تک پناہ دی اور اس کے بعد اولڈ ایج ہوم میں ان کا داخلہ کروا کر چھوڑ دیا اب یہ خاتون اپنی زندگی کے باقی دن اسی اولڈ ہوم میں گزارنے پر مجبور ہیں اور افسردہ ہیں کہ جن بیٹیوں کے لیۓ انہوں نے اپنی تمام زندگی گزار دی ان بیٹیوں نے ان کو چند دن تک ساتھ نہیں رکھ پائیں .

You May Also Like :
مزید