جو قسمت میں نہیں اُسے گیلری میں سنبھال رکھا ہے
ادھورے خواب کا ہر رنگ اب تک سنبھال رکھا ہے
وفاؤں کی ادھوری داستاں لکھی تھی اشکوں سے
اُسی دفتر پہ اب تک دل کا ملال رکھا ہے
چلی ہے وقت کی آندھی، بکھر گئے سب خواب
مگر ایک عکس کو سینے میں اُجال رکھا ہے
بچھڑ کر بھی وہ سانسوں میں بسی رہتی ہے
اُسے احساس کی گلیوں میں بحال رکھا ہے
نصیبوں کی سیاہی سے لکھی جدائی تھی
پھر بھی دل میں محبت کا کمال رکھا ہے
جو قسمت میں نہیں اُسے گیلری میں سنبھال رکھا ہے
نہ بھولے ہیں، نہ بدلے ہیں، بس حال رکھا ہے