ہم نے کیسے یہاں گزاری ہے
اشک خوُنی ہیں ، آہ و زاری ہے
ہم ہی پاگل تھے ، جان دے بیٹھے
اُن کو تو زندگی پیاری ہے
مسکرانا تو میری فطرت ہے
خونِ دل خلوتوں میں جاری ہے
راستہ بند کر دے یہ سب کا
دل کو اس کی گلی بھی پیاری ہے
باقی دنیا کے غم بھی، غم ہوں گے
تیری فرقت ، سبھی پہ بھاری ہے
قتلِ دل کو زمانے بیت گئے
کیسی اب تک یہ بیقراری ہے
اُس نے دیکھا تھا مجھ کو پردے سے
وہ نشہ ، آ ج تک بھی طاری ہے