وقت کی چال کو ، جس وقت بھی چلتے دیکھا
ہم نے اپنوں کو بھی غیروں میں بدلتے دیکھا
جب نہ امید کوئی آس نہ لڑنے کی تڑپ
ایسی کشتی کو نہ ساحل پہ پہنچتے دیکھا
اوج ملتی ہے زمیں والو زمیں پر رہ کر
جو شجر جھک گیا پھل اس سے نکلتے دیکھا
حد سے بڑھتا ہے اگر ظلم تو مٹ جاتا ہے
ہم نے فرعون کے گھر موسیٰ کو پلتے دیکھا
اپنی اپنی ہے نظر ، اپنی نگہ اپنا شعور
میں نے گرتے ہوئے اور تم نے سنبھلتے دیکھا
یہ تو اللہ پہ ہے کب مٖٹی کو سونا کردے
ہم نے پل بھر میں نصیبوں کو بدلتے دیکھا
تم نے ویرانیاں جس گھر کا مقدرسمجھیں
ہم نے اس گھر سے ہی اک سایہ نکلتے دیکھا
تیرے اشعار میں کیا بات ہے ایسی مفتی
ہم نے پتھر کو بھی دیکھا تو پگھلتے دیکھا