کیا ہو گا

Poet: Taj Rasul Tahir By: Taj Rasul Tahir, Islamabad

اس سے بڑھ کر عذاب کیا ہو گا
اور یوم حساب کیا ہو گا

سانس لینا محال ہو ہی چکا
حال اس سے خراب کیا ہو گا

جنس نایاب ہے بازار اندر
کھانا پینا جناب کیا ہو گا

چھا گئے آپ پر ذخیرہ اندوز
میرے حاکم جواب کیا ہو گا

میرے کھیتوں کی سبزیاں ناپید
خود کفالت کا خواب کیا ہو گا

قرض لیتے ہو بیچ کر ہم کو
ہم میں پھر انقلاب کیا ہو گا

علم و حکمت عطاء مغرب ہے
اس میں اپنا نصاب کیا ہو گا

عزت نفس جب نہیں طاہر!
فخر , عزت مآب کیا ہو گا

Rate it:
Views: 444
21 Nov, 2013