کہاں منظور تھا دل کو خفا ہونا، جدا ہونا
میں جن رستوں پہ بھی نکلا تجھی تک لوٹ کر آئے
عجب ہے لامکاں کی پردہ داری اِس قدر مولا
گئے جو لا پتہ ٹھہرے، جو آئے بے خبر آئے
ہمیں جو ڈھونڈتے پھرتے تھے بزمِ ناز میں یارو
مِلِیں جب یار سے نظریں، کہاں پھر وہ نظر آئے
اِدھر وہ دیکھنے آئے، اُدھر پہنچے اَجَل والے
قیامت آ گئی جس دم تو میرے چارہ گر آئے