نجات ہی نہیں ملتی تیری حسیں خابوں سے
جلتی ہے جان تیری یادکے تیزابوں سے
نہیں مٹتانقش تیری یادکاہمارے تصور سے
جیسے نہیں جاتی کبھی خوشبوگلابوں سے
آ بھی جاؤ کہ دل بہت اُداس ہے
عمر کاٹے نہیں کٹتی ان سرابوں سے
کروٹیں بدلتا ہوں رات بھراب تو
پل گُذرتا نہیں رات کے نوابوں سے
ہٹاؤ چلمن اُٹھاؤ پردے بہت ہو چُکا
اب ہم تنگ آ چُکے ہیں ان حجابوں سے
چلے بھی آؤ کہ سجوؔ تھک گیا ،ہار گیا
جی بہلتانہیں ان کچّی شرابوں سے