کٹتے ہی سنگ لفظ گرانی نکل پڑے

Poet: اقبال ساجد By: نعمان علی, Islamabad

کٹتے ہی سنگ لفظ گرانی نکل پڑے
شیشہ اٹھا کہ جوئے معانی نکل پڑے

پیاسو رہو نہ دشت میں بارش کے منتظر
مارو زمیں پہ پاؤں کہ پانی نکل پڑے

مجھ کو ہے موج موج گرہ باندھنے کا شوق
پھر شہر کی طرف نہ روانی نکل پڑے

ہوتے ہی شام جلنے لگا یاد کا الاؤ
آنسو سنانے دکھ کی کہانی نکل پڑے

ساجدؔ تو پھر سے خانۂ دل میں تلاش کر
ممکن ہے کوئی یاد پرانی نکل پڑے

Rate it:
Views: 318
09 Dec, 2021