کل سے دل بیمار کی حالت نہیں اچھی
Poet: ہمدان By: ہمدان, Gujranwalaکل سے دل بیمار کی حالت نہیں اچھی
اللہ کرے خیر ہو صورت نہیں اچھی
اس شوخ سے ملنے کی یہ صورت نہیں اچھی
موت اچھی مگر غیر کی منت نہیں اچھی
میں عاشق گیسو ہوں بہلتا ہے یہیں دل
کیوں کر یہ کہوں قبر کی وحشت نہیں اچھی
دیکھو کہ گلے ملتے ہی سر کاٹتی ہے تیغ
سچ کہتے ہیں ظالم کی محبت نہیں اچھی
کہہ کر کمر یار کو معدوم ہوئے غم
ہر جا پہ طبیعت کی بھی جودت نہیں اچھی
قاتل تجھے دے گا لب ہر زخم دعائیں
ہر وقت نمک ڈال یہ خست نہیں اچھی
اے شیخ نہ کر شوق میں حوروں کی عبادت
ہرگز نہ ملیں گی تری نیت نہیں اچھی
یہ کہہ کے لحد میری وہ کر جاتے ہیں پامال
پھر اس کو بناؤ کہ یہ تربت نہیں اچھی
اک عیب بھی ہے حسن کے ہم راہ بتوں میں
صورت اگر اچھی ہے تو سیرت نہیں اچھی
ہے ہے تجھے کس ظالم بے رحم نے روندا
حالت جو تری سبزۂ تربت نہیں اچھی
کیوں طور شرار رخ روشن سے جلائے
کہہ دے کوئی ان سے یہ شرارت نہیں اچھی
جاتے ہی ترے چھا گئی گھر بھر میں اداسی
میں کیا در و دیوار کی حالت نہیں اچھی
عشاق کو وہ دیکھتے ہیں چشم غضب سے
اک مصحف رخ میں یہی صورت نہیں اچھی
پیدا کرو انداز نئے تازہ ادائیں
ظلم و ستم و جور میں جدت نہیں اچھی
میں نے جو کہا رنج ہے کیا مرگ عدو کا
بولے کہ نہیں میری طبیعت نہیں اچھی
اے دیدۂ تر رو کہ کٹیں ہجر کی راتیں
برسات میں پانی کی یہ قلت نہیں اچھی
گھیرا جو مجھے دائرۂ رنج و الم نے
کیا میرے مقدر کی کتابت نہیں اچھی
اے بزمؔ اٹھا کرتا ہے کیوں درد جگر میں
سچ کہہ کسے دیکھا کہ طبیعت نہیں اچھی
اب کہ کوئی حسرت بھی نہیں رکھتے
آنکھ کھلی اور ٹوٹ گئے خواب ہمارے
اب کوئی خواب آنکھوں میں نہیں رکھتے
خواب دیکھیں بھی تو تعبیر الٹ دیتے ہیں
ہم کہ اپنے خوابوں پہ بھروسہ نہیں رکھتے
گزارا ہے دشت و بیاباں سے قسمت نے ہمیں
اب ہم کھو جانے کا کوئی خوف نہیں رکھتے
آباد رہنے کی دعا ہے میری سارے شہر کو
اب کہ ہم شہر کو آنے کا ارادہ نہیں رکھتے
گمان ہوں یقین ہوں نہیں میں نہیں ہوں؟
زیادہ نہ پرے ہوں تیرے قریں ہوں
رگوں میں جنوں ہوں یہیں ہی کہیں ہوں
کیوں تو پھرے ہے جہانوں بنوں میں
نگاہ قلب سے دیکھ تو میں یہیں ہوں
کیوں ہے پریشاں کیوں غمگیں ہے تو
مرا تو نہیں ہوں تیرے ہم نشیں ہوں
تجھے دیکھنے کا جنوں ہے فسوں ہے
ملے تو کہیں یہ پلکیں بھی بچھیں ہوں
تیرا غم بڑا غم ہے لیکن جہاں میں
بڑے غم ہوں اور ستم ہم نہیں ہوں
پیارے پریت ہے نہیں کھیل کوئی
نہیں عجب حافظ سبھی دن حسیں ہوں
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
۔
چلے ہو آپ بہت دور ہم سے ،
معاف کرنا ہوئا ہو کوئی قسور ہم سے ،
آج تو نرم لہجا نہایت کر کے جا ،
۔
درد سے تنگ آکے ہم مرنے چلیں گے ،
سوچ لو کتنا تیرے بن ہم جلیں گے ،
ہم سے کوئی تو شکایت کر کے جا ،
۔
لفظ مطلوبہ نام نہیں لے سکتے ،
ان ٹوٹے لفظوں کو روایت کر کے جا ،
۔
ہم نے جو لکھا بیکار لکھا ، مانتے ہیں ،
ہمارا لکھا ہوئا ۔ ایم ، سیاعت کر کے جا ،
۔
بس ایک عنایت کر کے جا ،
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
ہم بے نیاز ہو گئے دنیا کی بات سے
خاموش! گفتگو کا بھرم ٹوٹ جائے گا
اے دل! مچلنا چھوڑ دے اب التفات سے
تکمیل کی خلش بھی عجب کوزہ گری ہے
اکتا گیا ہوں میں یہاں اہل ثبات سے
اپنی انا کے دائروں میں قید سرپھرے
ملتی نہیں نجات کسی واردات سے
یہ دل بھی اب سوال سے ڈرنے لگا وسیم
تھک سا گیا ہے یہ بھی سبھی ممکنات سے
جسم گَلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
روئے کیوں ہم جدائی میں وجہ ہے کیا
ہے رنگ ڈھلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
ہوں گم سوچو میں، گم تنہائیوں میں، میں
ہے دل کڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے
بے چاہے بھی اسے چاہوں عجب ہوں میں
نہ جی رکتا مرا ہائے فراق کیا ہے
مٹے ہے خاکؔ طیبؔ چاہ میں اس کی
نہ دل مڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے






