کس کی تلاش ہے ہمیں کس کے اثر میں ہیں
Poet: آشفتہ چنگیزی By: مصدق رفیق, Karachiکس کی تلاش ہے ہمیں کس کے اثر میں ہیں
جب سے چلے ہیں گھر سے مسلسل سفر میں ہیں
سارے تماشے ختم ہوئے لوگ جا چکے
اک ہم ہی رہ گئے جو فریب سحر میں ہیں
ایسی تو کوئی خاص خطا بھی نہیں ہوئی
ہاں یہ سمجھ لیا تھا کہ ہم اپنے گھر میں ہیں
اب کے بہار دیکھیے کیا نقش چھوڑ جائے
آثار بادلوں کے نہ پتے شجر میں ہیں
تجھ سے بچھڑنا کوئی نیا حادثہ نہیں
ایسے ہزاروں قصے ہماری خبر میں ہیں
آشفتہؔ سب گمان دھرا رہ گیا یہاں
کہتے نہ تھے کہ خامیاں تیرے ہنر میں ہیں
More Love / Romantic Poetry






