کبھی وہ خواب میں آیا، کبھی آنکھوں سے تر آیا
محبت کے دریچوں میں عجب سا ایک در آیا
نہ تھا کوئی، نہ کچھ مانگا، فقط اک لمسِ جاں پرور
مگر وہ روح کو چھو کر، کسی صوفی کے سر آیا
نہ لفظوں میں سما پایا، نہ صورت میں دکھا خود کو
وہی خاموش لمحہ تھا، جو دل میں بارِ دَر آیا
خزاں کے بیچ ہنستے پھول جیسے یاد بن کر وہ
کسی پرچھائیں کی صورت، مری آنکھوں کے گھر آیا
جو دُنیاؤں سے آگے تھا، وہی چپ چاپ بیٹھا تھا
میں جب گِر کر اٹھا دل سے، وہ تب پہلی نظر آیا
نہ اس کا نام ممکن ہے، نہ چہرہ مستقل کوئی
کبھی خوشبو بنا آیا، کبھی ساگر میں بھر آیا