پھر فرار کی خواہش کہاں
Poet: درخشندہ By: Darakhshanda, Hustonآ جاۓ گر تلخی زباں پر
رہے پھر گفتکو میں چاشنی کہاں
بدل جاۓ تکرار میں اقرار انکار میں
رہے پھر بات میں گنجائش کہاں
بگڑی بات کو سنوار لے ابھی
وگرنہ ٹوٹ جاۓ آئنہ تو آرائش کہاں
گزر جاۓ جو ہر امتحاں سے
تو پھر اپنی آزمائش کہاں
روشن چراغ گر ہوجاۓ گل کہیں
اندھیرے میں پھر روشنی کہاں
بعد اترنے کے لحد میں
پھر فرار کی خواہش کہاں
More Sad Poetry






