وہ تہمتیں نہ لگاتا تو اور کیا کرتا
مرے ہنر نہ چھپاتا تو اور کیا کرتا
کھڑی تھیں ہر سو مظالم کی آندھیاں پھر میں
چراغ حق نہ جلاتا تو اور کیا کرتا
غریبی ساتھ مرا دے رہی تھی بچپن سے
نہ اس کا ساتھ نبھاتا تو اور کیا کرتا
میں چھالے ماں کی ہتھیلی پہ دیکھتا کیسے
کمانے شہر نہ آتا تو اور کیا کرتا
تمام بستی پریشاں تھی روشنی کے لئے
میں اپنا گھر نہ جلاتا تو اور کیا کرتا
سمجھ رہا تھا فرشتہ وہ خود کو اے عالمؔ
میں آئنہ نہ دکھاتا تو اور کیا کرتا