نہ زر چاہتا ہوں
Poet: purki By: M.hassan, karachiنہ زر چاہتا ہوں نہ جاہ چاہتا ہوں
تیری ذات سے میں علم و ہنر چاہتا ہوں
نوازا ہے تو نے جو اپنے خاص بندوں کو
تیرے درگاہ سے میں تھوڑا علم چاہتا ہوں
مجھے اپنی ضرورتوں کاادراک نہیں ہے
جو تو بخش دے میں وہی چاہتا ہوں
میں بے بس ہوں میرا کوئی نہیں ہے
تیرے ہی کرم کی ایک نظر چاہتا ہوں
زمانے کے رشتے سبھی ہیں ادھورے
تیرے رشتے کی میں انتہا چاہتا ہوں
آخری مرحلوں میں سفر بھی دشوار ہے
بلالو ہمیں اپنے پاس بس اشارہ چاہتا ہوں
اولاد اگر ناخلف ہو تو جینا بہت مشکل ہے
الٰہی محتاج نہ کرکسی کا بس یہی چاہتا ہوں
سدھر جائے زمانے کے سارے نافرماں
یہی ایک حسرت ہے جسکا حل چاہتا ہوں
یہ زندگی تیری امانت تھی مگر خیانت ہوئی ہم سے
تیرے پاس آنے سے پہلے تیری رضا چاہتا ہوں
جوانی جہالت میں ڈھوبی رہی ہے
تو غفار ہے تجھ سے معافی چاہتا ہوں
تو خالق ہے اور میں تیرا گناہگار مخلوق
سب چھوڑ کر بس تیری بندگی چاہتا ہوں
میں یہاں اپنی مرضی سے ہرگز آیا نہیں ہوں
مجھے لانے کا مقصد کیا ہے جاننا چاہتا ہوں
مجھے نہیں معلوم میں آزاد ہوں یا غلام
اگر آزاد ہوں تو اپنے سوالوں کا جواب چاہتا ہوں
یہ مشرق کا سسٹم یہ مغرب کا سسٹم
زمیں آسماں کا فرق میں سمجھنا چاہتا ہوں
اک طرف رزق کی فراوانی اک طرف ہے قحط کا سماں
یہ کیسا نظام دنیا ہے عدل چاہتا ہوں
لوٹ مار کے سسٹم کو خدائی سسٹم کہکر
خدارا اس ٹولے کو پہچانو عقل چاہتا ہوں
اب کہ کوئی حسرت بھی نہیں رکھتے
آنکھ کھلی اور ٹوٹ گئے خواب ہمارے
اب کوئی خواب آنکھوں میں نہیں رکھتے
خواب دیکھیں بھی تو تعبیر الٹ دیتے ہیں
ہم کہ اپنے خوابوں پہ بھروسہ نہیں رکھتے
گزارا ہے دشت و بیاباں سے قسمت نے ہمیں
اب ہم کھو جانے کا کوئی خوف نہیں رکھتے
آباد رہنے کی دعا ہے میری سارے شہر کو
اب کہ ہم شہر کو آنے کا ارادہ نہیں رکھتے
گمان ہوں یقین ہوں نہیں میں نہیں ہوں؟
زیادہ نہ پرے ہوں تیرے قریں ہوں
رگوں میں جنوں ہوں یہیں ہی کہیں ہوں
کیوں تو پھرے ہے جہانوں بنوں میں
نگاہ قلب سے دیکھ تو میں یہیں ہوں
کیوں ہے پریشاں کیوں غمگیں ہے تو
مرا تو نہیں ہوں تیرے ہم نشیں ہوں
تجھے دیکھنے کا جنوں ہے فسوں ہے
ملے تو کہیں یہ پلکیں بھی بچھیں ہوں
تیرا غم بڑا غم ہے لیکن جہاں میں
بڑے غم ہوں اور ستم ہم نہیں ہوں
پیارے پریت ہے نہیں کھیل کوئی
نہیں عجب حافظ سبھی دن حسیں ہوں
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
۔
چلے ہو آپ بہت دور ہم سے ،
معاف کرنا ہوئا ہو کوئی قسور ہم سے ،
آج تو نرم لہجا نہایت کر کے جا ،
۔
درد سے تنگ آکے ہم مرنے چلیں گے ،
سوچ لو کتنا تیرے بن ہم جلیں گے ،
ہم سے کوئی تو شکایت کر کے جا ،
۔
لفظ مطلوبہ نام نہیں لے سکتے ،
ان ٹوٹے لفظوں کو روایت کر کے جا ،
۔
ہم نے جو لکھا بیکار لکھا ، مانتے ہیں ،
ہمارا لکھا ہوئا ۔ ایم ، سیاعت کر کے جا ،
۔
بس ایک عنایت کر کے جا ،
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
ہم بے نیاز ہو گئے دنیا کی بات سے
خاموش! گفتگو کا بھرم ٹوٹ جائے گا
اے دل! مچلنا چھوڑ دے اب التفات سے
تکمیل کی خلش بھی عجب کوزہ گری ہے
اکتا گیا ہوں میں یہاں اہل ثبات سے
اپنی انا کے دائروں میں قید سرپھرے
ملتی نہیں نجات کسی واردات سے
یہ دل بھی اب سوال سے ڈرنے لگا وسیم
تھک سا گیا ہے یہ بھی سبھی ممکنات سے
جسم گَلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
روئے کیوں ہم جدائی میں وجہ ہے کیا
ہے رنگ ڈھلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
ہوں گم سوچو میں، گم تنہائیوں میں، میں
ہے دل کڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے
بے چاہے بھی اسے چاہوں عجب ہوں میں
نہ جی رکتا مرا ہائے فراق کیا ہے
مٹے ہے خاکؔ طیبؔ چاہ میں اس کی
نہ دل مڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے






