میرا نہیں رہا تو تمہارا نہیں رہا
اس شہر میں بھی کوئی ہمارا نہیں رہا
کمرے میں چند ایک کتابیں ہی رہ گئیں
دل کو جہان بھر کا سہارا نہیں رہا
برسوں کسی کی یاد منائی گئی مگر
اب ذکر تک بھی اس کا گوارہ نہیں رہا
اک عمر آنکھ رکھتی رہی دید کی امید
آنکھوں کا پھر وہ راج دلارا نہیں رہا
دکھ یہ نہیں ہماری وہ نظروں سے گر گیا
غم یہ بھی ہے وہ یار ہمارا نہیں رہا
عاکف محبتوں کے خسارے پہ بحث تھی
ہم ہنس دیے کہ ہم کو خسارہ نہیں رہا