مرے درد کی کہانی ترے جور کا فسانہ

Poet: بدیع الزماں سحر By: مصدق رفیق, Karachi

مرے درد کی کہانی ترے جور کا فسانہ
ہے لہو ترنگ نغمہ یہ نشاط گیں ترانہ

مرے ہم جلیس پھولو مرے ہم نوا عنادل
تری ٹہنیوں پہ کل تک تھا مرا غریب خانہ

میں مقیم گلستاں ہوں مجھے جانتے نہیں ہو
ابھی چار دن ہوئے ہیں کہ جلا ہے آشیانہ

تو ستم نصیب طائر کہاں جائے گا فضا سے
کہ متاع باغباں اب ہے چمن کا آب و دانہ

بڑی مشکلوں سے دولت یہ لگی ہے ہاتھ تجھ کو
کہیں لٹ نہ جائے پیارے ترا قیمتی خزانہ

نہ تو کف ہے خون میں تر نہ گواہیاں میسر
مرے مہرباں مبارک یہ قتال ماہرانہ

کہو بجلیوں سے جا کر کہ وہ آئیں ضد سے میری
میں رکھوں گا اس چمن میں یہیں اپنا آشیانہ

وہ خزاں کے روز و شب تھے جو بہار سے تھے بہتر
کہ غرض سے بے غرض تھا سحرؔ اپنا دوستانہ
 

Rate it:
Views: 188
24 Jun, 2025