لے آئے

Poet: Rasheed Hasrat By: رشید حسرت, Quetta

تمہارے واسطے ہم توڑ کر مہتاب لے آئے
محبت پر سجائے کو نئے اعراب لے آئے

سلیقہ تو نہیں ہم کو مگر دیکھو قرینے سے ہمیں تعبیر دو آنکھوں میں چن کر خواب لے آئے

ہم ان کے بِیچ ثالث تھے کہ ان کا تصفیہ ہو گا
بہت بے آبرو ہوتے رہے، القاب لے آئے

دغا کی بات چل نکلی تھی یاروں میں ذرا پہلے
تصور میں ہم اپنے دور کے احباب لے آئے

تمہاری بزم کو مطلوب تارے تھے کئی دن سے
نہیں کچھ کر سکے بے نام سے اسباب لے آئے

ہماری راہ کی دیوار بنتے جا رہے تھے یہ
لپٹ کر رہ گئے تھے پاؤں سے گرداب، لے آئے

انہیں معلوم تھا چڑ ہے ہمیں بوسیدہ چیزوں سے
جبھی تو زخم چن چن کر بڑے شاداب لے آئے

گئے تھے اس نگر اک شخص کے برباد کرنے کو
مگر ہم تو وہاں سے پیار کے آداب لے آئے

ہمیں لگتا ہے آہیں بے کسوں کی کیا بگاڑیں گی
یہ آنسو ہی تو حسرتؔ دیکھ لو سیلاب لے آئے

Rate it:
Views: 8
31 Aug, 2025
More Sad Poetry