لو دیکھو! ہنس رہا ہوں میں
Poet: ایم آر چشتی By: M R Chishti, Muzaffarpur, Bihar, Indiaلو دیکھو! ہنس رہا ہوں میں
تمہیں تکلیف تو ہوگی
مرے ہنسنے سے میرے کھلکھلانے سے
کسی رنگین محفل میں
میرے یوں آنے جانے سے
گلی کے موڑ پر
اک چائے خانے میں
کسی کے ساتھ ایسے بیٹھ کر گپے لڑانے سے
تمہیں تکلیف تو ہوگی
تمہیں ایسا لگا تھا نا!
کہ تم سے دور جاکر ٹوٹ جاؤں گا
میں تنہائی میں چھپ کر ہر گھڑی آنسو بہاؤں گا
کہیں جانا ہوا تو جاتے جاتے لڑکھڑاؤں گا
میری حالت کچھ ایسی ہوگی کہ اپنوں سے بھی میں منھ چھپاؤں گا
ارے پگلی
یہ سب باتیں کتابی ہیں
جو لاگو تھیں کسی گزرے زمانے میں
یہ عہد نو ہے
اور اس عہد میں رک جانا سستی کی علامت ہے
مجھے بھی دور جانا ہے
سفر میں تو تمہارے جیسے لاکھوں لوگ آئیں گے
کوئ اک کھو گیا تو پھر کسے پرواہ ہے جاناں
مری آنکھوں میں دیکھو
پھر مری تحریر کو دیکھو
یہ آنسو بے سبب آئے ہوئے ہیں میری آنکھوں میں
میری آنکھیں ہیں جھوٹی پر مری تحریر سچی ہے
ارے پگلی!
ہمیشہ کی طرح سچ کہ رہا ہوں میں
لو دیکھو! ہنس رہا ہوں میں
اب کہ کوئی حسرت بھی نہیں رکھتے
آنکھ کھلی اور ٹوٹ گئے خواب ہمارے
اب کوئی خواب آنکھوں میں نہیں رکھتے
خواب دیکھیں بھی تو تعبیر الٹ دیتے ہیں
ہم کہ اپنے خوابوں پہ بھروسہ نہیں رکھتے
گزارا ہے دشت و بیاباں سے قسمت نے ہمیں
اب ہم کھو جانے کا کوئی خوف نہیں رکھتے
آباد رہنے کی دعا ہے میری سارے شہر کو
اب کہ ہم شہر کو آنے کا ارادہ نہیں رکھتے
گمان ہوں یقین ہوں نہیں میں نہیں ہوں؟
زیادہ نہ پرے ہوں تیرے قریں ہوں
رگوں میں جنوں ہوں یہیں ہی کہیں ہوں
کیوں تو پھرے ہے جہانوں بنوں میں
نگاہ قلب سے دیکھ تو میں یہیں ہوں
کیوں ہے پریشاں کیوں غمگیں ہے تو
مرا تو نہیں ہوں تیرے ہم نشیں ہوں
تجھے دیکھنے کا جنوں ہے فسوں ہے
ملے تو کہیں یہ پلکیں بھی بچھیں ہوں
تیرا غم بڑا غم ہے لیکن جہاں میں
بڑے غم ہوں اور ستم ہم نہیں ہوں
پیارے پریت ہے نہیں کھیل کوئی
نہیں عجب حافظ سبھی دن حسیں ہوں
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
۔
چلے ہو آپ بہت دور ہم سے ،
معاف کرنا ہوئا ہو کوئی قسور ہم سے ،
آج تو نرم لہجا نہایت کر کے جا ،
۔
درد سے تنگ آکے ہم مرنے چلیں گے ،
سوچ لو کتنا تیرے بن ہم جلیں گے ،
ہم سے کوئی تو شکایت کر کے جا ،
۔
لفظ مطلوبہ نام نہیں لے سکتے ،
ان ٹوٹے لفظوں کو روایت کر کے جا ،
۔
ہم نے جو لکھا بیکار لکھا ، مانتے ہیں ،
ہمارا لکھا ہوئا ۔ ایم ، سیاعت کر کے جا ،
۔
بس ایک عنایت کر کے جا ،
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
ہم بے نیاز ہو گئے دنیا کی بات سے
خاموش! گفتگو کا بھرم ٹوٹ جائے گا
اے دل! مچلنا چھوڑ دے اب التفات سے
تکمیل کی خلش بھی عجب کوزہ گری ہے
اکتا گیا ہوں میں یہاں اہل ثبات سے
اپنی انا کے دائروں میں قید سرپھرے
ملتی نہیں نجات کسی واردات سے
یہ دل بھی اب سوال سے ڈرنے لگا وسیم
تھک سا گیا ہے یہ بھی سبھی ممکنات سے
جسم گَلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
روئے کیوں ہم جدائی میں وجہ ہے کیا
ہے رنگ ڈھلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
ہوں گم سوچو میں، گم تنہائیوں میں، میں
ہے دل کڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے
بے چاہے بھی اسے چاہوں عجب ہوں میں
نہ جی رکتا مرا ہائے فراق کیا ہے
مٹے ہے خاکؔ طیبؔ چاہ میں اس کی
نہ دل مڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے







