عکس وطن
Poet: rabnawaz By: rabnawaz, riyadhیہ کیسی گھڑی میرے ملک پہ آئی ہے یارب
زندگی کے خوف سے لوگ مرنے کی دعا کرتے ھیں
ظالم بھی ہے حق پر مظلوم بھی حق پر
جنت کے ٹکٹ سربازار ملا کرتے ہیں
جو مرےوہ شہید جو مارے وہ غازی
زندگی تو بس گنہگار جیا کرتے ہییں
حصول علم کی سزا موت ہے یہاں پر
دختر ملت کی تربت پر تحریر لکھا کرتے ہیں
اے آگاش وطن یہ منظر بھی تو نے بارہا دیکھا
پانی کے گھروں میں یہاں چراغ جلا کرتے ہیں
اےارض وطن کیا ہوا تیری آغوش کو
بچے تیرے آنگن میں صبیح شام مرا کرتے ہیں
اے شہید وطن تمہارا لہو تھا یا پانی تھا
بہار میں بھی یہاں کاغذ کے پھول سجا کرتےہیں
اے گلشن تیری شجر کاری کا کیا کہنا
تیرے باغبان قبروں سے پھول چناکرتے ہیں
تکرار نہ کرنا فقیہ شہر سے کبھی بھی
استاد اپنے شاگردوں سے التجا کیا کرتے ہیں
اس صحرا کی تنگی کو کب تک ڈھانپیں گے
ساںے شجر سے احتجاج کیا کرتے ہیں
دست و گریباں ہے آسمان اور زمین یہاں
شاگرد استادوں کو ملامت کیا کرتے ہیں
یہ بہار بھی کوںی بہار ہے اس سے تو خزاں اچھی
کانٹے اکثر پھولوں سے گلہ کیا کرتے ہیں
جی جی کے مرنا ہو تو اور بات تھی
لیکن لوگ یہاں مر مر کے جیا کرتے ھیں
ویراں ہے میکدہ آباد ہے ساقی یہاں
ٹوٹے ہوںے جام بھی بیش قیمت ہوا کرتے ہیں
اوج انسان کی تعبیر ہے یہ یہاں
مٹی کے لوگ مٹی میں ملا کرتے ہیں
اب کہ کوئی حسرت بھی نہیں رکھتے
آنکھ کھلی اور ٹوٹ گئے خواب ہمارے
اب کوئی خواب آنکھوں میں نہیں رکھتے
خواب دیکھیں بھی تو تعبیر الٹ دیتے ہیں
ہم کہ اپنے خوابوں پہ بھروسہ نہیں رکھتے
گزارا ہے دشت و بیاباں سے قسمت نے ہمیں
اب ہم کھو جانے کا کوئی خوف نہیں رکھتے
آباد رہنے کی دعا ہے میری سارے شہر کو
اب کہ ہم شہر کو آنے کا ارادہ نہیں رکھتے
گمان ہوں یقین ہوں نہیں میں نہیں ہوں؟
زیادہ نہ پرے ہوں تیرے قریں ہوں
رگوں میں جنوں ہوں یہیں ہی کہیں ہوں
کیوں تو پھرے ہے جہانوں بنوں میں
نگاہ قلب سے دیکھ تو میں یہیں ہوں
کیوں ہے پریشاں کیوں غمگیں ہے تو
مرا تو نہیں ہوں تیرے ہم نشیں ہوں
تجھے دیکھنے کا جنوں ہے فسوں ہے
ملے تو کہیں یہ پلکیں بھی بچھیں ہوں
تیرا غم بڑا غم ہے لیکن جہاں میں
بڑے غم ہوں اور ستم ہم نہیں ہوں
پیارے پریت ہے نہیں کھیل کوئی
نہیں عجب حافظ سبھی دن حسیں ہوں
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
۔
چلے ہو آپ بہت دور ہم سے ،
معاف کرنا ہوئا ہو کوئی قسور ہم سے ،
آج تو نرم لہجا نہایت کر کے جا ،
۔
درد سے تنگ آکے ہم مرنے چلیں گے ،
سوچ لو کتنا تیرے بن ہم جلیں گے ،
ہم سے کوئی تو شکایت کر کے جا ،
۔
لفظ مطلوبہ نام نہیں لے سکتے ،
ان ٹوٹے لفظوں کو روایت کر کے جا ،
۔
ہم نے جو لکھا بیکار لکھا ، مانتے ہیں ،
ہمارا لکھا ہوئا ۔ ایم ، سیاعت کر کے جا ،
۔
بس ایک عنایت کر کے جا ،
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
ہم بے نیاز ہو گئے دنیا کی بات سے
خاموش! گفتگو کا بھرم ٹوٹ جائے گا
اے دل! مچلنا چھوڑ دے اب التفات سے
تکمیل کی خلش بھی عجب کوزہ گری ہے
اکتا گیا ہوں میں یہاں اہل ثبات سے
اپنی انا کے دائروں میں قید سرپھرے
ملتی نہیں نجات کسی واردات سے
یہ دل بھی اب سوال سے ڈرنے لگا وسیم
تھک سا گیا ہے یہ بھی سبھی ممکنات سے
جسم گَلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
روئے کیوں ہم جدائی میں وجہ ہے کیا
ہے رنگ ڈھلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
ہوں گم سوچو میں، گم تنہائیوں میں، میں
ہے دل کڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے
بے چاہے بھی اسے چاہوں عجب ہوں میں
نہ جی رکتا مرا ہائے فراق کیا ہے
مٹے ہے خاکؔ طیبؔ چاہ میں اس کی
نہ دل مڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے






