عشق میں بو ہے کبریائی کی

Poet: بقا اللہ بقاؔ By: مصدق رفیق, Karachi

عشق میں بو ہے کبریائی کی
عاشقی جس نے کی خدائی کی

ہم سری مت صبا سے کر اے آہ
تو نے بھی کچھ گرہ کشائی کی

لے چلے ہم قفس سے اے صیاد
خاک میں آرزو رہائی کی

روز محشر تلک نہ آخر ہوں
داستانیں شب جدائی کی

شیخ جیو سے ہوئی نہ سرزد باو
چول بولی ہے چارپائی کی

جس میں یاران بزم ہوں محظوظ
یوں بقاؔ میں غزل سرائی کی

میر بھی ورنہ خوب کہتے ہیں
کاٹیے جیب ان کی دائی کی
 

Rate it:
Views: 112
20 May, 2025