شہیدِ اربعہ العداویہ
Poet: مسعود محمود خان By: Dr. Masood Mehmood Khan, Perth, WAشہیدِ اربعہ سلام تجھ کو
تری ادائے وفا کے صدقے
مری حیات و متاعِ دنیا
شہیدِ اربعہ سلام تجھ کو
ترے لہو کے ہر ایک قطرے سے
اک نئی کہکشا ں سجی ہے
ہر ایک قطرے سے تیرے خوں کے
جہانِ روشن ابھر رہا ہے
ہر اک جہاں میں ترے رفیقوں کی بستیاں ہیں
جوتری یادوں کی روشنی سے
مثالِ سورج ہوئی ہیں روشن
شہیدِ اربعہ سلام تجھ کو
یہ زرہ خاکِ اربعہ جو
ترےمعطر لہو سے روشن
چمک رہا ہے دمک رہا ہے
نصیب اس کا وہ رفعتیں ہیں
جو جا کے لا ہوت سے ملی ہیں
شہیدِ اربعہ سلام تجھ کو
تر ے لہو کا ہر ایک قطرہ
فراعنہ کو بتا ر ہا ہے
کہ نیل کی سوگوار لہروں پہ
پھر پڑے گی عصائے موسی
ملے گا اک تابناک رستہ
رہِ محمد کے قا فلو ں کو
یہ خونِ پاکِ شہید اربعہ
فراعنہ کو بتا ر ہا ہے
نہ تم کو کوئی اماں ملے گی
نہ یاں ملے گی نہ واں ملے گی
یہ عارضی جیت جلد بن کر
عزاب پیہم تمہیں ڈسے گی
تمہا رے لشکر کے سارے جلاد
جلد اپنی ہی سولیوں پر
چڑھے ملیں گےہے
اب کہ کوئی حسرت بھی نہیں رکھتے
آنکھ کھلی اور ٹوٹ گئے خواب ہمارے
اب کوئی خواب آنکھوں میں نہیں رکھتے
خواب دیکھیں بھی تو تعبیر الٹ دیتے ہیں
ہم کہ اپنے خوابوں پہ بھروسہ نہیں رکھتے
گزارا ہے دشت و بیاباں سے قسمت نے ہمیں
اب ہم کھو جانے کا کوئی خوف نہیں رکھتے
آباد رہنے کی دعا ہے میری سارے شہر کو
اب کہ ہم شہر کو آنے کا ارادہ نہیں رکھتے
گمان ہوں یقین ہوں نہیں میں نہیں ہوں؟
زیادہ نہ پرے ہوں تیرے قریں ہوں
رگوں میں جنوں ہوں یہیں ہی کہیں ہوں
کیوں تو پھرے ہے جہانوں بنوں میں
نگاہ قلب سے دیکھ تو میں یہیں ہوں
کیوں ہے پریشاں کیوں غمگیں ہے تو
مرا تو نہیں ہوں تیرے ہم نشیں ہوں
تجھے دیکھنے کا جنوں ہے فسوں ہے
ملے تو کہیں یہ پلکیں بھی بچھیں ہوں
تیرا غم بڑا غم ہے لیکن جہاں میں
بڑے غم ہوں اور ستم ہم نہیں ہوں
پیارے پریت ہے نہیں کھیل کوئی
نہیں عجب حافظ سبھی دن حسیں ہوں
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
۔
چلے ہو آپ بہت دور ہم سے ،
معاف کرنا ہوئا ہو کوئی قسور ہم سے ،
آج تو نرم لہجا نہایت کر کے جا ،
۔
درد سے تنگ آکے ہم مرنے چلیں گے ،
سوچ لو کتنا تیرے بن ہم جلیں گے ،
ہم سے کوئی تو شکایت کر کے جا ،
۔
لفظ مطلوبہ نام نہیں لے سکتے ،
ان ٹوٹے لفظوں کو روایت کر کے جا ،
۔
ہم نے جو لکھا بیکار لکھا ، مانتے ہیں ،
ہمارا لکھا ہوئا ۔ ایم ، سیاعت کر کے جا ،
۔
بس ایک عنایت کر کے جا ،
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
ہم بے نیاز ہو گئے دنیا کی بات سے
خاموش! گفتگو کا بھرم ٹوٹ جائے گا
اے دل! مچلنا چھوڑ دے اب التفات سے
تکمیل کی خلش بھی عجب کوزہ گری ہے
اکتا گیا ہوں میں یہاں اہل ثبات سے
اپنی انا کے دائروں میں قید سرپھرے
ملتی نہیں نجات کسی واردات سے
یہ دل بھی اب سوال سے ڈرنے لگا وسیم
تھک سا گیا ہے یہ بھی سبھی ممکنات سے
جسم گَلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
روئے کیوں ہم جدائی میں وجہ ہے کیا
ہے رنگ ڈھلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
ہوں گم سوچو میں، گم تنہائیوں میں، میں
ہے دل کڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے
بے چاہے بھی اسے چاہوں عجب ہوں میں
نہ جی رکتا مرا ہائے فراق کیا ہے
مٹے ہے خاکؔ طیبؔ چاہ میں اس کی
نہ دل مڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے






