رکھتا ہے یوں وہ زلف سیہ فام دوش پر
صیاد جس طرح سے دھرے دام دوش پر
شانے تلک چڑھے بن اب آنسو کو کب ہے چین
سچ ہے کہ ہووے طفل کو آرام دوش پر
اک دن ملا جو شیخ تو پھر میکشوں کے ساتھ
سر پر لیے پھرے گا سبو جام دوش پر
ملنا تو آج بھی نہ ہوا شب کو اور اٹھا
ایفائے وعدہ اے بت خود کام دوش پر
ہے دل میں گھر کو شہر سے صحرا میں لے چلیں
اٹھوا کے آنسوؤں سے در و بام دوش پر
وہ زشت بخت ہوں کہ ملائک کو بھی مرے
لکھنے کا پیش آوے جو کچھ کام دوش پر
نیکی مری تو نام بدوں کے کریں رقم
زشتی لکھیں بدوں کی مرے نام دوش پر
مطرب بچوں نے شیخ کو ٹنگیا لیا تمام
لی وقت جائے خلعت انعام دوش پر
ڈالا نہ بار عشق زمیں پر بقاؔ نے یار
سر سے اگر گرا تو لیا تھام دوش پر