حسین خواب دکھایا دکھا کے چھوڑ دیا
کسی نے اپنا بنایا بنا کے چھوڑ دیا
جو اس کی یادوں کا دیپک کبھی ہوا روشن
تو آنسوؤں سے بجھایا بجھا کے چھوڑ دیا
کیا نہ اس نے مرے درد کو کبھی محسوس
ہمیشہ دل کو دکھایا دکھا کے چھوڑ دیا
بتاتا کیسے میں حساس کے معانی اسے
سو آئنے کو اٹھایا اٹھا کے چھوڑ دیا
میں حوصلہ نہ جٹا پایا اس کو چھونے کا
نقاب رخ سے ہٹایا ہٹا کے چھوڑ دیا
کہیں نہ اس کی برائی میں ہم ہوئے شامل
نظر سے جس کو گرایا گرا کے چھوڑ دیا
بہت سلیقے سے اس نے کیا نظر انداز
قریب اپنے بٹھایا بٹھا کے چھوڑ دیا
نہ ان سے رکھی کبھی روشنی کی امیدیں
دیوں کو ہم نے جلایا جلا کے چھوڑ دیا