ایک دِل سے دُوسرے کی باتیں کرتی ہے غزل

Poet: By: TARIQ BALOCH, HUB CHOWKI

ایک دِل سے دُوسرے کی باتیں کرتی ہے غزل
اِک جہاں سے دُوسرے میں جب اُترتی ہے غزل

کَون چاہے گا یہ باتیں عام لہجے میں کرے
جب کہ سَو سَو اِک بیَاں میں رنگ بھرتی ہے غزل

جب بھی قاری پڑھنا چاہے دِل سے دِل کی بات کو
خود کو لے کے لمحہ لمحہ پھر سَنورتی ہے غزل

مرزا کی باندی رہی تو میر سے ہے کب الگ
ہے ولی سے انصرام تو اُبھرتی ہے غزل

کِیُوں کہُوں ہیں لفظ میرے ، اوروں کی نہ بات ہو
اُن کو جب میں ساتھ رکُھوں تو نکھرتی ہے غزل
 

Rate it:
Views: 378
06 Dec, 2013