اگر وہ چشمِ پُر افسوں نظر بھر کر مجھے دیکھے
تو میں دنیا کو، دل کو، خواب کو سب کچھ لٹا دوں گا
گرا دیں گی نگاہیں اُس کی سب دیوارِ امکاں کو
بس اِک لمحہ وہ ٹھہرے، میں زمانہ ہی مٹا دوں گا
کبھی گر شب کے سناٹے میں اُس کی یاد آ جائے
تو میں تاروں سے اُس کے نام کی محفل سجا دوں گا
نہ پوچھو میری تنہائی میں کیسا درد ہوتا ہے
میں اس دل کی صداؤں کو صدا دے کر سُنا دوں گا
اگر وہ پوچھ بیٹھے گا، "محبت کیا حقیقت ہے؟"
میں اپنی خامشی سے اُس کو سب کچھ ہی بتا دوں گا
یہی ہے وصل کی شرطیں، یہی انجامِ دل داری
میں اُس کی اک جھلک پر سیف جیسے کو بھلا دوں گا