آنکھوں میں جو بسا تھا وہ کاجل کہاں گیا
تھا ضبط جس کے دم سے وہ بادل کہاں گیا
ہم جس کے ساتھ شوق سے نکلے تھے سیر کو
وہ ہم سفر کہاں ہے وہ جنگل کہاں گیا
کرتا تھا شہر میں جو محبت سے گفتگو
معلوم ہے کسی کو وہ پاگل کہاں گیا
موجیں بھی اس کے پاس اٹھیں نظم و ضبط سے
ساحل کی جان تھا جو وہ دیبل کہاں گیا
پھیلی ہوئی تھی جس کے تقدس کی روشنی
آنکھیں تلاش میں ہیں وہ آنچل کہاں گیا
بانوؔ جو غم ملا مجھے قسمت سے اب وہی
لے کر کسی کی یاد مسلسل کہاں گیا