آنا پڑا مجھے

Poet: رشید حسرت By: Rasheed Hasrat, Quetta

پوچھا تو مختصر ہی سنانا پڑا مجھے
مہنگا بہت یہ دل کا لگانا پڑا مجھے

ویراں نگر میں چھوڑ کے ایسا چلا تھا کیا؟
جو جاتے جاتے لوٹ کے آنا پڑا مجھے

کرنا پڑا ہے اتنی کراہت کا سامنا
چہرے پہ روپ اور سجانا پڑا مجھے

دھتکار دی ہے، گاہے پکارا ہے چاہ سے
جانا پڑا کبھی، کبھی آنا پڑا مجھے

تھا جان سے عزیز، مگر بے اصول تھا
رستہ اسے بھی گھر کا دکھانا پڑا مجھے

اک شخص اپنے جرم مرے نام کر گیا
ناکردہ بوجھ سر پہ اٹھانا پڑا مجھے

وہ جا کے پھر نہ آنے کی ضد پر ڈٹے رہے
امید کا چراغ بجھانا پڑا مجھے

کل جن کو میری وجہ سے پہچان مل گئی
افسوس نام ان کو بتانا پڑا مجھے

حسرتؔ یہ شہر کون، جہاں سب خدا دِکھیں
خیمہ نگر سے دور لگانا پڑا مجھے
 

Rate it:
Views: 7
05 Oct, 2025
More Sad Poetry