زندگی تجھ سے ہارتی ہی رہی
وقت مجھ کو گزارتی ہی رہی
حملہ آور تھیں خواہشیں اور میں
نفس کو اپنے مارتی ہی رہی
تنگ چادر تھی پھر بھی میں اس کو
پاؤں اپنے پسارتی ہی رہی
آئینہ خال و خد چرا کے ترے
روپ اپنا نکھارتی ہی رہی
ایک تنہا چکور رات کی رات
جانے کس کو پکارتی ہی رہی
جسم بچوں کے ڈھاپنے کے لئے
کھال وشمہ اتارتی ہی رہی